تفصیلات کے مطابق زیادتی کا نشانہ بننے والی کم عمر بچی کی والدہ بیمار ہیں، والد نے پولیس کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کر لی ہے، رشتہ دار بچی کو اپنے گھر رکھنے پر راضی نہیں اور حکومتی سطح پر ایسا کوئی انتظام نہیں کہ جہاں بچی کو رکھا جا سکے، اس لیے بچی تھانے میں رہنے پر مجبور ہے۔ جس تھانے میں بچی کو رکھا گیا ہے وہ ویمن پولیس سٹیشن ہے، جہاں ایک مرد محرر کے علاوہ باقی سب عملہ خواتین پر مشتمل ہے۔
پولیس کے مطابق بچی زیادہ بات نہیں کر پاتی، جب آئی تو ہر وقت روتی رہتی تھی، ہمارے تھانے میں رہتے ہوئے اس کو پانچ دن سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ یہاں ہم نے اسے ایک کمرہ دیا ہے، عملہ ہوتا ہے جو اس کا خیال رکھتا ہے۔
انسانی حقوق اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان کے مطابق یہ متاثرہ بچی کے حقوق کی خلاف ورزی ہے، گلگت میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی چائلڈ پروٹیکشن سنٹر بھی نہیں ہے۔ 2017 میں گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی نے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے چائلڈ پروٹیکشن بل کی منظوری دی تھی، لیکن اس کے تحت بننے والے چائلڈ پروٹیکشن یونٹ اب تک فعال نہیں ہو سکے۔
یاد رہے کہ یہ بچی 27 جولائی کو لاپتہ ہوئی تھی اور اس کے والد نے 29 جولائی کو پولیس میں اس کی گمشدگی کے حوالے سے رپورٹ درج کروائی تھی۔ رپورٹ درج ہونے کے ایک گھنٹے بعد لڑکی گھر لوٹ آئی تھی، ابتدائی طبی رپورٹ میں ثابت ہوا تھا کہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے۔
لڑکی کے والد نے بیٹی کی بازیابی کے بعد پولیس حکام کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر 2 اگست کو چنار باغ کے مقام پر دریائے گلگت میں کود کر خود کشی کر لی تھی۔