سیاست اتنا بےرحم کام ہے کہ ن لیگ ارشد ملک کی شخصیت کو بطور ایک منفی کردار کے سامنے لے کے آئی۔ میرا پہلے دن سے یہ خیال ہے کے ارشد ملک کے اعتراف اور مبینہ ٹیپس دراصل نواز شریف, مریم نواز اور ہمارے نظام انصاف پر ایک بہت بڑا احسان ہے۔ بے شک نواز شریف کو ابھی تک انصاف نہیں ملا لیکن یہ طے ہے کہ اس اعتراف کے بعد اس فیصلہ کی معطلی کسی طاقت کی بنیاد پر تاخیر کا شکار تو ہو سکتی ہے لیکن یہ فیصلہ جلد یا بدیر اپنی موت آپ مر جائے گا۔
ارشد ملک دراصل نواز شریف کے بہت بڑے محسن ثابت ہوئے اور ان کا اعتراف نواز شریف کو ایک نئی زندگی عطا کر گیا اور ان کے سیاسی بیانیہ کو مزید تقویت ملی لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے ادارے کیلئے بھی بہت سارے سوال اٹھائے ہیں تا کہ ادارہ اگر اپنی تاریخ یا حال درست نہیں کر سکتا لیکن مستقبل کی پیش بندی ضرور کرے۔ کچھ لوگوں کا یہ اعتراض ہے کہ انہوں نے دباؤ کے ذریعے نواز شریف کے خلاف فیصلہ کے حصول کا بر سرعام اعتراف نہیں کیا بلکہ ان کے اعتراف کے خفیہ ویڈیو بنائی گئی۔یہ بات کسی حد تک درست ہے لیکن کیا اس بات کی تعریف نہیں کی جانی چاہئے کہ ارشد ملک کو اپنے فیصلے پر افسوس تھا۔
ایسے ہی مقدمات اور احتساب عدالتوں میں بھی تھے بلکہ چل بھی رہے ہیں لیکن کسی کو فیصلہ دیتے وقت یا اس کے بعد کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ جسٹس منیر کو نظریہ ضرورت ایجاد کرنے پر تادم مرگ کوئی ندامت نہیں ہوئی۔ ضیاء اور مشرف کے مارشل لاء کو جائز قرار دینے والے ججز قطعا شرمندہ نہ ہوئے۔جسٹس ارشاد حسن خان تو ابھی تک اپنے فیصلوں کے حق میں دلائل دیتے نظر آتے ہیں۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار تو قانون پر کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں حالانکہ ان کے دور میں اگر کچھ موجود نہیں تو وہ قانون تھا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھٹو کو پھانسی دینے پر دباؤ کا تو اعتراف کر لیا لیکن کوئی خاص شرمندگی انہیں بھی نہیں تھی اور نہ ہی ان کے سوا خدا نے کسی اور کو توفیق دی کہ وہ کم از کم شرمندہ ہی ہو سکیں حالانکہ ایک جج کے نام کے ساتھ تو "مولوی"کا لاحقہ بھی موجود تھا۔
کسی کتاب میں ہی ذکر ہوتا کہ ایوب, یحیی,ضیا اور مشرف کسی جگہ اس بات پر شرمندگی کا اظہار کرتے پائے گئے کہ انہوں نے ملک کا یہ حشر کیا۔ کوئی اس موضوع پر بات کرنے کیلئے بھی تیار نہیں کہ پرویز مشرّف کا باہر جانا کیسے ممکن ہوا۔ ارشد ملک تو اپنی مبینہ ویڈیو اور اعترافی بیان کے ساتھ ملازمت سے برخاست ہو گئے لیکن ان کی عدالت کی طرف سے نوازشریف کو دی گئی سزا ابھی تک کیوں قائم ہے اس پر کوئی سوال تک کرنے کو آمادہ نہیں حالانکہ ایک سابقہ چیف جسٹس نے اس ویڈیو کے بعد اس فیصلے کو عدلیہ پر ایک داغ قرار دیا تھا۔
جسٹس قیوم ملک کی آڈیو ٹیپ پکڑی گئی تو وہ استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے لیکن مجال ہے کہ انہوں نے کبھی اشارتًا بھی اپنے عمل پر شرمندگی کا اظہار کیا ہو بلکہ وہ تو مشرف اور زرداری دور میں اٹارنی جنرل بھی رہے۔ رانا ثناءاللہ کا یہ بیان غیر مناسب ہے کہ انصاف کی فراہمی میں ارشد ملک جیسے جج رکاوٹ بنتے ہیں۔ اس انحطاط پذیر معاشرہ میں یہ غنیمت جانیں کہ کسی شخص پر دباؤ کے باوجود اسے اپنے کئے پر پشیمانی ہو۔جسٹس رحمت جعفری نے دباؤ کے باوجود نوازشریف کو ہائی جیکنگ کیس میں عمر قید کی سزا سنائی تھی اور بعدازاں شریف خاندان ان کا ممنون نظر آیا۔ کچھ ہی عرصے میں شریف خاندان کو اندازہ ہو جاۓ گا کہ مرحوم ارشد ملک نے بھی اپنے اوپر دباؤ کے اعتراف سے نوازشریف کو ایک نئی سیاسی زندگی عطا کی تھی۔
سنا ہے کہ مسلم لیگ ن تیرہ دسمبر کے جلسے میں ان کی بقیہ وڈیو ٹیپس چلانے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن اب ارشد ملک کے جانے کے بعد ایسے اقدامات کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے یہ تو سیاسی لوگ ہی جانیں لیکن ن لیگ کو چاہیے کہ وہ انہیں نظام انصاف کا ایک ولن بنانے کی بجائے ایک محسن کے طور پر دیکھیں۔عدلیہ پر بھی لازم ہے کہ وہ ارشد ملک مرحوم کی ویڈیو پر اپنا فیصلہ صادر کرے۔اگر ان کا اعتراف درست ثابت ہو جائے تو انہوں نے دراصل عدلیہ پر داغ نہیں لگایا تھا بلکہ اپنی پشیمانی کے ذریعے ایک جج پر پڑنے والے دباؤ,اس کی بےبسی اور اس میں ملوث کرداروں کی نشاندہی کی تھی۔کیا ہمارے نظام انصاف میں ہمت ہے کہ وہ ایسے دباؤ یا سازشوں کا مستقبل میں راستہ روکنے کیلئے آگے بڑھے۔
امید تو ہمیشہ بہتر رکھنی چاہئے اور بابر ستار جیسی شخصیت کی بطور جج نامزدگی سے ایک روشنی کی کرن نظر تو آئی ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ مرحوم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ وقار سیٹھ سینیارٹی کے باوجود سپریم کورٹ کے جج نہ بنائے گئے۔جسٹس صدیقی ابھی تک انصاف ڈھونڈ رہے ہیں اور جسٹس فائز عیسی بھی اپنا میڈیا ٹرائل کراتے ہوئے,ایف بی آر کی چالاکیوں سے بچ کر اپنے برادر ججز سےانصاف مانگ رہے ہیں۔ہمارے معاشرے کو چاہیے کہ وہ ایسا ماحول بنا کر رکھے کہ نظام انصاف پر دوبارہ ایسا دباؤ نہ آ سکے۔ ارشد ملک دراصل ہماری تاریخ کے ولن ثابت نہیں ہوئے بلکہ ولن تو وہ ہیں جنہیں قدرت نے اعتراف اور رجوع کی جرأت عطا نہ کی اور وہ اسی حالت میں لحد میں اتر گئے یا جانے والے ہیں۔