یہ بات انہوں نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں نیب جانب سے مبینہ طور پر ریکور کی گئی 821 بلین روپے کی رقم کی تحقیقات کے معاملے پر جواب دیتے ہوئے کہی۔
چئیرمین کمیٹی رانا تنویر نے سینیٹ کی فنانس کمیٹی میں 815 ارب روپے کی ریکوری کے معاملے پر سوال اٹھایا کہ نیب کی جانب سے موقف اپنایا گیا ہے کہ اتنی رقم ہم نے ریکور کی ہے لیکن وزارت خزانہ نے کہا انہیں 815 بلین کا پتا ہی نہیں کہاں گئی؟
اس پر چیئرمین نیب نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے جو رقم ریکور کی، ان کا تمام حساب ہمارے پاس ہے لیکن بلوچستان یا سندھ یا کسی اور صوبے میں ریکور کی گئی رقم ان صوبوں کو دی گئی اور ہم قانونی طور پر پابند نہیں کہ وزارت خزانہ کو بتا دیں۔
ایک سوال پر کہ کیا وزارت کو آپ قانونی طور پر بتانے کے پابند نہیں جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ ہم کس قانون کے تحت وزارت خزانہ کو بتائیں؟ کیا قانون میں کہا گیا ہے کہ وزارت خزانہ کو بتانا ہوگا؟
رکن کمیٹی نور عالم خان نے کمیٹی میں موقف اپنایا کہ سیاستدانوں کو ہی برا سمجھا جاتا ہے اور آپ کا خوف سب پر حاوی ہے لیکن ڈر ان کو ہوتا ہے جنہوں نے ایسا کچھ کیا ہے۔
نور عالم خان نے سوال اٹھایا کہ کیا نیب میں کام کرنے والے افسران کے اثاثہ جات ڈکلئیر کئے جاتے ہیں؟ بیوروکریسی، ملٹری، ججز اور فوج میں کتنے افراد کے خلاف کیسز ہیں؟
اس پر چیئرمین نیب نے جیسے ہی جواب دینا شروع کیا تو رانا تنویر نے انھیں روکتے ہوئے کہا کہ آپ ہمیں جواب تحریری طور پر جمع کرائیں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں نور عالم خان کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ممبران خاموش رہے اور چیئرمین نیب سے کوئی خاطر خواہ سوال نہیں پوچھا۔
نیب کی جانب سے 3 ارب 60 کروڑ روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ بغیر منظوری استعمال کرنے پر کمیٹی نے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ نیب اور سیکرٹری خزانہ سپلیمنٹری گرانٹ کو ایک ماہ میں قومی اسمبلی سے منظور کروائے اور اسمبلی سے منظور نہ ہونے کی صورت میں یہ رقم نیب ملازمین سے وصول کی جائے۔
کمیٹی نے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ چئیرمین نیب جنوری کے پہلے ہفتہ پی اے سی کو بتائیں کہ کتنی رقم ملزمان سے وصول کی گئی اور کمیٹی کو بتایا جائے کہ لوٹی ہوئی رقم کتنی تھی، ڈیفالٹ کتنی اور ہاؤسنگ سوسائٹی سے کتنی وصول کی؟
چیئرمین نیب نے کمیٹی کو بتایا کہ کمیٹی کی جانب سے جاری کی گئی ہدایات پر بریفنگ دینے کو تیار ہوں لیکن کمیٹی کو ان کیمرہ رکھا جائے جس پر چیئرمین نیب کی استدعا منظور کرتے ہوئے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے آئندہ اجلاس ان کیمرہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔