کراچی میں رہائش اور زمین کی سیاست

کراچی میں رہائش اور زمین کی سیاست
اگرچہ پاکستان کے آئین کے تحت ریاست کا فرض اور ذمہ دا ری ہے کہ شہریوں کو ترجیحی بنیاددوں پر حقوق فراہم کئے جائیں مگر افسوس کہ ہمارے ملک میں شہریوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔

آئین پاکستان کا آرٹیکل 38 جو ” لوگوں کی معاشرتی اور معاشی بہبود کو فروغ دینے ” سے متعلق ہے اس کی وضاحت ان الفاظ میں کرتا ہے کہ جنس، ذات، رنگ یا نسل سے قطع نظر ان تمام شہریوں کے لئے جو کسی عارضہ، بیماری یا بے روزگاری کی وجہ سے مستقل یا عارضی طور پر اپنا روزگار کمانے سے قاصر ہیں۔

بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی، جیسے کھانا، لباس، رہائش، تعلیم اور طبی امداد ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگرچہ پاکستانی آئین کے آرٹیکل 38 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 'عوام کو رہائش فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن پاکستان کے شہریوں کی اکثریت کے لئے رہائش تک رسائی کا حق عملی طور پر انتظار کے تجربے سے جُڑا ہوا ہے۔

اس طویل المیعاد انتظار کی کیفیت اور اس کی جزیات کو سمجھنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ شہری کیسے اور کہاں انتظار کرتے ہیں اور ان کے انتظار کے عمل میں ریاست کے ساتھ ان کے مزاحمتی مقابلوں پر روشنی ڈالنے سے معاشرے کے بہت سے پہلوؤں کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس سے مستقبل کے لئے بہتر منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔

موجودہ صورتحال میں جب کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں زمین کی قلت اور رہائش کے بحران کے ساتھ  پسماندہ طبقے کے لئے گھروں کا انتظار پناہ تلاش کرنے کی سیاست کی تشکیل کرتا ہے کیونکہ طویل مدت تک غیر یقینی صورتحال مختلف خدشات کو جنم دیتی ہے۔ غیر رسمی اور غیر قانونی رہائش سے قانونی ورسمی رہائش کا سفر مزید دشوار ہو جاتا ہے۔

ایسے حالات میں پالیسی کے نقطہ نظر کی تبدیلی، حکمت عملی، حکمرانی کے مستقل اور اکثر اوقات مبہم طریقوں سے جُڑا ہُوا انتظار شہریوں اور ریاست کے مابین مخالفت، بغاوت اور تصادم کی فضا پیدا کرتا ہے۔

مجموعی طور پر پاکستان کے شہروں میں رہائش کے منتظر افراد کو کہیں کسی بھی منصوبہ بندی کا حصہ نہیں بنایا جاتا بلکہ انہیں قانونی وغیر قانونی کی درمیانی کیفیت میں بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اس دوران اور طویل مدتی انتظار میں زندگی بسر کرنے کے لئے جہد مسلسل کے جذبے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ متحرک ہونے کے ساتھ وقتاً فوقتاً احتجاج بھی کرنا ہے، ورنہ اکثر ریاست ایسے شہریوں کو غیر قانونی اور قابضین قرار دے کر مستقبل کے منصوبوں میں ان کی شرکت اور جائز رہائش کے حق کو ختم کر دیتی ہے۔ جبکہ غیر یقینی صورتحال اور انتظار کی کیفیت بہت سے نفسیاتی عوارض کو جنم دیتی ہے کیونکہ انسان مستقل الجھنوں اور غلط فہمیوں میں گھرا رہتا ہے۔

شہر کراچی میں ریاست کی جانب سے فراہم کردہ مکانات کا انتظار کرنا معمول کی بات ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ اس میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں، لوگ انتظار اور امید کرتے رہتے ہیں۔ اس میں دو طرح کے طبقات ہیں ایک وہ کہ جنھوں نے اپنی آدھی زندگی کرائے کے مکان میں گزار دی اور کسی سرکاری رہائشی اسکیم میں پلاٹ خریدا کہ وہاں گھر بنا کر اپنے گھر میں منتقل ہو جائیں گے مگر ایک دہائی گزر جانے کے باوجود ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔ شہر کراچی میں اس کی مثالیں تیئسر ٹاؤن اور ہاکس بے اسکیم 42 ہیں۔

اسی طرح ماضی قریب میں 50 لاکھ گھر بنانے کے وعدے پر مشتمل نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم سے بھی لاکھوں لوگوں نے یہ توقع وابستہ کی کہ شاید اس طرح ان کا برسوں کا انتظار اختتام پذیر ہو اور وہ اپنے گھر کے مالک بن جائیں مگر ڈھائی سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کوئی ٹھوس پیشرفت سامنے نہیں آسکی بلکہ اس کے لئے قائم نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے اب تک ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی۔

یہ ہاؤسنگ اسکیم جسے غریب دوست اقدام کا نام دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اپنے گھر کا خواب حقیقت میں تبدیل کرنا اب اس کے ذریعے ممکن ہوگا لیکن اسی غریب اور کمزور طبقے کو کہا گیا کہ آپ نے گھر کی کل قیمت لاکھوں میں ادا کرنی ہے اور پہلی ادائیگی کم وبیش 6 لاکھ سے زائد ہوگی تو سوال یہ ہے کہ دیہاڑی دار، سبزی فروش، کنٹریکٹ پر کام کرنے والا لاکھوں روپے کہاں سے لائے گا تاکہ وہ گھرحاصل کر سکے یعنی پیشگی رقم لاکھوں روپے رکھ کر اس غریب اور کمزور طبقے کو تو آپ نے علیحدہ کردیا۔

ظاہری طور پر یہ اسکیم غریب اور کمزور طبقے کو سہولت فراہم کرتی ہے اور ایسی صورتحال میں اس اسکیم میں رجسٹریشن اور پھر ریاست کے ذریعہ فنڈڈ اور بنائے گئے مکان کا فائدہ اٹھانے کا انتظار کرنا منطق سے بالاتر ہے۔ مجموعی تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ ریاست کم آمدنی والے مکانوں کی بڑے پیمانے پر تشکیل دے رہی ہے۔

دوسرا طبقہ وہ ہے جو شہروں میں غیر رسمی بستیوں میں رہائش پذیر تھا اور مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لیے انہیں ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا اور ساتھ ہی ان سے یہ وعدہ کیا گیا کہ ریاست انہیں بہتر متبادل فراہم کرے گی مگر سالہا سال گزر جانے کے باوجود بھی انہیں متبادل رہائش کی فراہمی کے حوالے سے عملی اقدامات نہیں کئے گئے۔

ایسی صورتحال ہمیں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نظر آتی ہے جبری طور پر بے دخل کئے گئے گھرانوں کو بغیر کسی معاوضے یا متبادل کے بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا۔

گذشتہ دو دہائیوں کے دوران کراچی میں جبری  بے دخل کیے گئے بمشکل 33 فیصد گھرانوں کو کسی بھی قسم کی آبادکاری کی جگہ، نقد معاوضہ، یا اپنی معاش کی تعمیر نو کے لیے مدد ملی ہے جبکہ باقی 67 فیصد کو انتظار کی کیفیت میں چھوڑ دیا گیا ہے۔

لیاری ایکسپریس وے منصوبے میں کم وبیش 77 ہزار گھرانے بے گھر ہوئے جبکہ ان میں سے نصف کو ہی متبادل رہائش میسر ہو سکی- آج بھی حسن اولیا ویلیج میں کئی خاندان پچھلے پانچ سالوں سے انتظار کی مستقل حالت میں ہیں کہ ریاست اپنے وعدے کے مطابق انہیں متبادل رہائش فراہم کرے گی۔ اسی طرح 2019ء کے اوائل میں مسمار کی گئی کراچی سرکلر ریلوے سے ملحقہ آبادیوں سے جبری طور پر بے دخل کئے گئے 1100 سے زائد خاندان سپریم کورٹ کے حکم اور وعدے کے مطابق متبادل رہائش کے منتظر ہیں مگر ڈھائی سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوسکی۔

یہ سلسلہ ابھی جاری وساری ہے کیونکہ 2020ء میں ہونے والی بارشوں میں شہر کے بیشتر حصے زیر آب آنے سے حکومتی اداروں نے برساتی نالوں کو چوڑا کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک بار پھر شہر کے غریب اور کمزور طبقے کو نشانہ بنایا گیا۔ شہر کے تین بڑے نالوں محمود آباد نالہ، اورنگی نالہ اور گجر نالے کے اطراف میں رہائش پذیر آبادیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی اور بلدیہ عظمیٰ کراچی نے ان آبادیوں کے مکینوں کی جبری بے دخلی کا کام شروع کردیا اور انتہائی تیز رفتاری سے ہزاروں خاندانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا۔

یہاں بھی حکومتی وعدہ یہی تھا کہ ہر خاندان کو متبادل رہائش فراہم کی جائیگی۔ اس کی مختلف اشکال سامنے آتی رہیں اور پہلے مرحلے میں متاثرین کو کہا گیا کہ وہ 2 سال تک کرائے کی رہائش اختیار کریں اور انہیں 15 ہزار فی ماہ کرائے کی مد میں ادا کیے جائیں گے۔ یہ رقم 6 ماہ کا کرایہ یعنی 90 ہزار کے چار چیکس کی صورت میں ہوگا مگر برا ہو ان سروے کرنے والوں کا جنہوں نے گھرانوں کو ٹھیک نہیں گنا اور نصف سے زائد خاندانوں کو شامل ہی نہیں کیا بلکہ جنہیں شامل کیا ان کے کوائف کے اندراج میں مختلف طرح کی غلطیاں کیں جس سے متاثرین کو آج تک وہ رقم حاصل نہ ہو سکی تو متبادل رہائش کے ملنے کا تو تصور ہی محال ہے۔

یوں ایک جانب وہ لوگ ہیں جن کے ناموں کا ٹھیک اندراج ہے وہ بھی ریاست کے منتظر ہیں اور دوسری جانب وہ کہ جنہیں شامل ہی نہیں کیا گیا مگر ان کے سر سے چھت چھین لی گئی وہ بھی اس امید میں ہیں کہ شاید ان کا نام شامل کرلیا جائے-

نقل مکانی کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال لوگوں کو طویل عرصے تک زمین، رہائش اور ذریعہ معاش کے حوالے سے خطرناک حالات میں گزارے پر مجبور کرتی ہے۔

لہٰذا لوگوں کو معاوضے کے لیے معاش اور گھروں میں استحکام کے لیے جگہ سازی میں سماجی تحفظ اور تحفظ کے احساس کے لیے 'انتظار' کی مستقل حالت میں پیش کیا جاتا ہے۔

اگرچہ یہ ناگفتہ بہ حالت ریاست کے بارے میں مایوسی اور بد اعتمادی کے جذبات کو جنم دیتی ہے لیکن یہ متضاد طور پر متاثرہ باشندوں کو ریاست سے انحصار کے غیر متناسب رشتے میں جوڑتا ہے۔

بہرحال شہریوں کی اکثریت کے لئے رہائش تک رسائی کا یہ حق عملی طور پر انتظار کے تجربے سے جڑا نظر آتا ہے۔ رہائشی مکانات کے منتظر رہنا نہ صرف اس دوران پناہ تلاش کرنے کی سیاست بلکہ شہری اور ریاست کے مابین تصادم کی ایک متنازعہ سیاست کا بھی مقابلہ کرتا ہے۔

رہائش کا انتظار کرنے والی سیاست ناصرف ان سیاق وسباق میں پھیلی ہوئی ہے جس میں لوگ انتظار کے دوران رہتے ہیں بلکہ ریاست کے ساتھ مقابلوں میں متبادل رہائش  سے متعلق پالیسیوں اور طریق کار کو تبدیل کروانے میں کوشاں اس بات کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ شہادت اور حقوق کا دعویٰ ایک طویل عرصے بعد کس طرح ایک مجسم شکل اختیار کرتا ہے۔

 

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے