چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ ارشد شریف از خود نوٹس کی سماعت کررہا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر بینچ میں شامل ہیں ۔ وزارت داخلہ نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کی۔
ارشد شریف کے قتل سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ اس واقعے کی تفتیش سینیئر اور آزاد افسران سے کرائی جائے جو معاملہ فہم اور دوسرے ملک سے شواہد لانے کے ماہر ہوں۔‘
عدالت نے نئی جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی، پولیس، آئی بی ، ایف آئی اے کے نمائندے شامل کیے جائیں۔ جے آئی ٹی میں ایسا افسر نہیں چاہتے جو ان کے ماتحت ہو جن کا نام آ رہا ہے۔ کل تک جے آئی ٹی کے تمام ناموں سے آگاہ کیا جائے۔
عدالت نے یہ آبزرویشن بھی دی ہے کہ اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں سے بھی معاونت ضروری ہو تو وزارت خارجہ معاونت کرے۔ ارشد شریف کے اہلخانہ سے تمام معلومات شیئر کی جائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس قتل کے بنیادی شواہد کینیا میں ہیں۔ کینین حکومت سے اس معاملے پر رابطہ کیا جائے۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا کام قابل ستائش ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کے نام تک رپورٹ میں نہیں لکھے گئے۔ مقدمہ میں کس بنیاد پر تین لوگوں کو نامزد کیا گیاہے ؟ فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کیخلاف مقدمہ کیوں درج نہیں کیا گیا؟ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔ تنبیہ کر رہا ہوں کہ حکومت بھی سنجیدگی سے لے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ کینیا میں ہائی کمیشن متعلقہ حکام کیساتھ رابطے میں ہے۔ ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ فائرنگ کرنے والے کینیا کے پولیس اہلکار ہیں۔ کینیا میں چار دن پہلے نئی کابینہ بنی ہے جن سے ملاقات کی کوشش کی جارہی ہے۔ جائزہ لینا ہوگا غیر ملکیوں کیخلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے یا نہیں۔
والدہ ارشد شریف نے کہا کہ جس طرح پاکستان سے ارشد کو نکالا گیا وہ رپورٹ میں لکھا ہے۔ دبئی سے جیسے ارشد کو نکالا گیا وہ بھی رپورٹ میں ہے۔
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ ارشد شریف کی والدہ نے کئی لوگوں کے نام دیے ہیں۔ حکومت قانون کے مطابق تمام زاویوں سے تفتیش کرے۔ کیس شروع ہی خرم اور وقار سے ہوتا ہے۔
عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔