ارشد شریف کی والدہ رفعت آرا علوی نے بروز منگل چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کو بھیجے گئے خط میں درخواست کی ہے کہ خرم اور وقار احمد کے ساتھ ساتھ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، جنرل ندیم انجم، جنرل فیصل نصیر، بریگیڈیئر محمد شفیق ملک، بریگیڈیئر فہیم رضا، کرنل نعمان اور کرنل رضوان کو بھی ان کے بیٹے کے منظم اور ٹارگٹڈ قتل کے لیے ایف آئی آر میں نامزد کیا جائے۔
اپنے خط میں صحافی ارشد شریف کی والدہ نے تفصیل سے بتایا کہ ارشد شریف، جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج کے ساتھ 'بہت اچھی شرائط' پر تھے، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد فوج کے کس طرح تنقید کرنے لگے۔
انہوں نے کہا کہ "ارشد نے شواہد اکٹھے کیے اور طاقتور عسکری حلقوں میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کی جب انہوں نے اے آر وائی چینل پر 31 مئی 2022 کو "وہ کون تھا" پروگرام کیا تھا۔ جب انہیں پہلی بار انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے بریگیڈیئر شفیق ملک کی طرف سے دھمکیاں ملنا شروع ہوئیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ اس کے بعد ارشد نے مختلف ٹویٹس میں بریگیڈیئر شفیق کو ان کے گنجے ہونے کے کی وجہ سے "گنجا شیطان" کہہ کر ان کا ذکر کرنا شروع کیا اور پھر بعد میں آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر فہیم رضا نے میجر جنرل فیصل نصیر ڈی جی (سی) آئی ایس آئی کی طرف سے پیغام دینے کے لئے ارشد شریف کو آئی ایس آئی سیکٹر ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں بلایا۔
انہوں نے بتایا کہ ارشد شریف کو متعدد بار تنبیہ کی گئی کہ اگر اس نے فوج کے خلاف بولنا بند نہ کیا تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ 10 اگست 2022 کو دبئی فرار ہونے سے قبل شریف نے انہیں بتایا کہ اگر انہیں کچھ ہوتا ہے تو جنرل قمر جاوید باجوہ، لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم، میجر جنرل فیصل نصیر، بریگیڈیئر محمد شفیق ملک، بریگیڈیئر فہیم رضا، کرنل رضوان اور کرنل نعمان ذمہ دار ہوں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے احکامات پر ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ تھانہ رمنا میں درج کیا گیا تھا۔ اسلام آباد پولیس نے شہید صحافی ارشد شریف کے قتل کی ایف آئی آر ان کی والدہ کی مدعیت کے بغیر ہی درج کی جبکہ شہید کی والدہ کا کہنا تھا کہ حکومت میری مدعیت میں بیٹے کے قتل کی ایف آئی آردرج کرے۔