https://www.youtube.com/watch?v=MJu7wFOC-oU
اپنے تاریخ ساز فیصلے میں سپریم کورٹ نے تحریک لبیک کے قائدین کو نفرت، اشتعال انگیزی اور مذہبی جذبات بھڑکانے کا مرتکب قرار دیا اور قائدین سمیت تحریک لبیک کے ان کارکنوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جو توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراو میں ملوث تھے۔ سپریم کورٹ نے ایسے افراد کے خلاف بھی پاکستان پینل کوڈ، انسداد دہشت گردی ایکٹ اور الیکٹرانک کرائم بل کے تحت کارروائی کرنے کا حکم جاری کیا جو دوسرے افراد کے خلاف اشتعال انگیز فتوے جاری کر کے ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں یا معاشرے میں نفرت اور شدت پسندی پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ حکومت، مسلح افواج، خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سپریم کورٹ نے اپنی متعین کردہ حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے کا حکم دیا۔ جہاں اعلیٰ عدلیہ نے آزادی اظہار رائے کے حق اور جلسوں جلوسوں کے حق کو سماج میں بسنے والے دیگر افراد کے حقوق متاثر نہ ہونے سے مشروط کیا وہیں اس نے یہ حکم بھی جاری کیا کہ وطن عزیز میں کسی بھی ادارے یا ایجنسی کے پاس عوام یا میڈیا کے اظہار رائے اور اختلاف رائے کے حق پر قدغنیں لگانے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے فیض آباد میں دھرنے اور اس کے نتیجے میں ملک بھر میں پھیلنے والے احتجاج کی ناکامی کا مؤجب حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناقص حکمت عملی کو قرار دیا اور انہیں آئندہ کیلئے اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کیلئے ٹھوس اور جامع حکمت عملی بنانے کا حکم دیا۔ آئی ایس آئی کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کو اعلیٰ عدلیہ نے ناقابل تسلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی نے تحریک لبیک کے رہنماؤں کے بنک گوشواروں، ذرائع آمدن کی تفصیلات اور ان کے رہائشی پتے فراہم نہیں کیے۔ اعلیٰ عدلیہ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عوام کو یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ کسی خفیہ ایجنسی کسی کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ اصغر خان کیس کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے فیصلے میں یہ بھی تحریر کیا کہ آئین کی رو سے مسلح افواج کے افسران کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں شریک نہیں ہو سکتے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت، دھڑے یا شخصیت کی پشت پناہی کر سکتے ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=w993rozPf30
سپریم کورٹ نے ہدایات جاری کیں کہ وہ افسران جنہوں نے اپنے حلف سے روگردانی کر کے سیاسی معاملات میں حصہ لیا ان کے خلاف وزارت دفاع اور ان کے اداروں کے سربراہان کارروائی کریں۔ اعلیٰ عدلیہ نے فیصلے میں آئی ایس پی آر کے سیاسی معاملات سے متعلق تبصرے کرنے پر بھی تنقید کی۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے ٹویٹ کیا گیا تھا کہ تاریخ ثابت کرے گی کہ 2018 کے انتخابات منصفانہ تھے۔ میڈیا کے حوالے سے سپریم کورٹ نے فیصلے میں تحریر کیا کہ اس نے تحریک لبیک کے دھرنوں کو براہ راست بلا تعطل نشر کیا اور تحریک لبیک کی مشہوری میں کردار ادا کیا۔ پیمرا کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ نے فیصلے میں تحریر کیا کہ یہ اپنے لائسنس یافتہ نشریاتی اداروں کے حقوق کے تحفظ میں ناکام رہا اور جب جیو اور ڈان نیوز کی نشریات کو بند کیا گیا تو اس نے کیبل آپریٹرز کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کی۔ ڈان اخبار کی گذشتہ برس کینٹ اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں ترسیل بند ہونے پر بھی عدالت نے تشویش کا اظہار کیا اور یہ تحریر کیا کہ کونسل آف نیوز پیپر ایڈیٹرز نے شکایات کیں کہ انہیں مخصوص حلقوں کی جانب سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے باعث وہ سیلف سینسر شپ پر مجبور ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ نے اس عمل کو آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے واضح ہدایات جاری کیں کہ کسی ادارے یا خفیہ ایجنسیوں کو میڈیا اور اظہار رائے پر قدغنیں عائد کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
43 صفحات پر مشتمل سپریم کورٹ کا یہ تاریخ ساز فیصلہ جسے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا جہاں پاکستان کی زمینی صورتحال کا اصل رخ پیش کرتا ہے وہیں یہ قدغنوں اور ڈھکی چھپی آمریت کے اندھیروں میں امید کی روشنی کی ایک چھوٹی سی کرن بھی ہے۔ اس فیصلے کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ جہاں پاکستان کی عدالتی تاریخ جسٹس منیر اور جسٹس ثاقب جیسے متنازع ججوں سے بھری پڑی ہے وہیں اس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم جیسے آزاد منش مصنف بھی موجود ہیں جو فیصلے دیتے وقت کسی بھی ان دیکھے دباؤ کو ملحوظ خاطر نہیں لاتے۔ اعلیٰ عدلیہ کے اس تاریخ ساز فیصلے کو الیکٹرانک میڈیا پر بلیک آؤٹ کر دیا گیا جبکہ ڈان اور ایک عدد اور نمایاں اخبار کے علاوہ کسی اشاعتی ادارے نے بھی اس پر زیادہ بات چیت نہیں کی۔ جس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نادیدہ زنجیروں میں جکڑے سماج کیلئے محض عدالتی فیصلہ ہی کافی نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدالت کے اس فیصلے پر عملدرآمد کون کروائے گا؟ سول انتظامیہ اور منتخب حکومتوں کے پاس تو اس فیصلے پر عملدرآمد کروانے کی استعداد موجود نہیں ہے اور جو اس پر عملدرآمد کروا سکتے ہیں وہ اس فیصلے سے خوش دکھائی نہیں دیتے۔ معزز عدلیہ کو چاہیے کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے پیش رفت کا جائزہ لے اور اس فیصلے پر عملدرآمد کروانے کیلئے انتظامیہ کی پشت پر موجود رہے۔
ٹی وی چینلوں کا اس تاریخی عدالتی فیصلے کا بلیک آؤٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ الیکترانک میڈیا میں صحافت دم توڑ چکی ہے اور اب وہاں محض سیاستدانوں اور منتخب حکومتوں پر تنقید کے علاوہ کچھ اور دکھانے کو باقی نہیں بچا ہے۔ اس قسم کا فیصلہ کسی سیاسی جماعت یا منتخب حکومت کے بارے میں آیا ہوتا تو ابھی تک ٹی وی چینلوں اور اخبارات نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہوتا۔ اعلیٰ عدالت کے اس تاریخ ساز فیصلے نے جہاں اس کے وقار میں اضافہ کیا ہے وہیں یہ سوالات بھی کھڑے کر دیے ہیں کہ کیا تحریک لبیک جیسے مہروں کو مذہب کے نام پر استعمال کر کے طاقت کی بساط پر بازی پلٹنے کا سلسلہ اب ختم ہو گا یا نہیں اور کیا تحریک انصاف جو اس بساط پر مہرے کی مانند استعمال ہوئی ہے اس کا انجام بھی تحریک لبیک جیسا تو نہیں ہو گا؟ وطن عزیز کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ مہرے ہمیشہ سے ایسے ہی انجام سے دوچار ہوتے آئے ہیں لیکن مہرے تیار کرنے والے کبھی کسی کی پکڑ میں نہیں آئے۔ دوسری جانب اگر اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے پر من و عن عمل نہ ہو پایا تو پھر عدالت کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟
https://www.youtube.com/watch?v=Qyh6wa4A_pY
ہمارے جیسے سماج جنہیں ان دیکھی زنجیروں میں عرصہ دراز سے جکڑ کر رکھا گیا ہو انہیں زنجیروں کی گرفت سے نکلنے میں شاید تھوڑا وقت درکار ہوتا ہے۔ ان ان دیکھی زنجیرووں کو توڑنے کا عمل اعلیٰ عدلیہ نے اس تاریخ ساز فیصلے سے کر دیا ہے۔ باقی وقت کی ریت ہے کہ یہ بدلتا بھی ہے اور ارتقا کے عمل کو ساتھ ساتھ لے کر دھیرے دھیرے بڑھتے ہوئے بہت کچھ تبدیل کر دیا کرتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس مشیر عالم اور اعلیٰ عدلیہ نے اس تاریخ ساز فیصلے سے اپنے اپنے حصے کی شمعیں روشن کر کے اجالا کر دیا ہے۔ اب ریاست کے دیگر تین ستونوں کو بھی اپنے حصے کی شمعیں جلانا ہوں گی تاکہ وطن عزیز پر چھائے شدت پسندی اور آمرانہ ادوار کے اندھیروں کو مٹایا جا سکے۔