یاد رہے کہ اپریل 2017 میں پاکستان فوج نے بتایا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو پاکستانی سیکیورٹی ایجنسی کے حوالے کر دیا ہے۔ تاہم جماعت الاحرار نے اس بیان کی تردید کی اور کہا کہ احسان اللہ احسان کو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے افغانستان سے گرفتار کیا ہے۔
واضح رہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے عمر خراسانی جیسے طالبان رہنماؤں کے ساتھ مل کر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا ایک الگ گروپ بنایا تھا جسے جماعت الاحرار کا نام دیا گیا۔
پاک فوج نے احسان اللہ احسان کا ایک اعترافی بیان بھی جاری کیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام کر رہے تھے۔ ویڈیو میں ٹی ٹی پی کے ترجمان نے اپنا اصلی نام لیاقت علی بتایا اور کہا کہ ان کا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے۔
احسان اللہ احسان نے بطور ترجمان تحریک طالبان پاکستان، ملک میں ہونے والی دہشتگردی کی بڑی کارروائیوں کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ جس میں ملالہ یوسفزئی پر حملہ، شیعہ کمیونٹی پر راولپنڈی اور کراچی میں ہونے والے حملے، باچا خان انٹرنیشل ائیرپورٹ پر ہونے والے راکٹ حملہ، گلگت بلتستان میں سیاحوں پر قاتلانہ حملے، لاہور میں واہگہ بارڈر، کرسچن کمیونٹی اور پارک میں ہونے والے حملے، قبائلی اضلاع میں پاک فوج پر ہونے والے حملے اور پنجاب کے سابق وزیر داخلہ کرنل ریٹائرڈ شجاعت خانزادہ پر ہونے والا حملہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ احسان اللہ احسان پر اے پی ایس حملے میں ملوث ہونے کا الزام بھی ہے، جس میں 140 سے زائد بچوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر اس وقت جو آڈیو وائرل ہے اس کے مطابق احسان اللہ احسان مبینہ طور پر 11 جنوری کو بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ مبینہ آڈیو پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ پاکستانی اداروں اور فوج کے بارے میں اور اپنی گرفتاری اور فرار کے بارے میں مزید تفصیلات بعد میں دیں گے۔