78 فیصد پاکستانی خرچے پورے نہ ہونے سے پریشان، کیا اس میں کوئی حقیقت ہے؟

03:38 PM, 7 Feb, 2022

عبداللہ مومند
ملک میں مختلف مسائل پر عوامی رائے پر سروے کرنے والے ادارے پلس نے اپنی حالیہ سروے میں کہا ہے کہ ملک میں مہنگائی اور معیشت کی ابتر صورتحال کی پیش نظر 78 فیصد افراد نے خرچے پورے نہ ہونے کی شکایت کی۔

سروے کے مطابق جولائی 2020 میں 59 فیصد افراد ماہانہ اخراجات پورے نہ ہونے کا شکوہ کر رہے تھے لیکن اب ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور 72 فیصد لوگ ماہانہ اخراجات پورے نہ ہونے کی شکایت کررہے ہیں۔

ملک کے ادارہ شماریات (پی بی ایس) نے بھی ملک میں تاریخی مہنگائی کے بارے میں اعداد و شمار جاری کئے۔ جاری کردہ اعداد وشمار کے حوالے سے بتایا گیا کہ کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) سے پیمائش کردہ مہنگائی 21 مہینوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، جس کی ایک وجہ تیل کی عالمی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہے، جس سے پہلے کے حاصل کردہ فوائد کو نقصان پہنچا۔

معیشت پر نظر رکھنے والے نوجوان محقق سجاد احمد پلس کے سروے سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ادارہ شماریات کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ کم آمدن والے افراد کے لئے مہنگائی کا تناسب 20 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ دوسری جانب تنخواہوں اور یومیہ اجرت میں اتنا اضافہ نہیں ہوا جن کی وجہ سے مڈل کلاس کے لوگوں کے لئے بے پناہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ جو Sensitive Price Index کے اعدادوشمار ہے جو خوراکی مواد کے قیمتوں کے پیمائش کے حوالے سے ہے میں گذشتہ تین سالوں میں پچاس فیصد تک اضافہ ہوا ہے مگر لوگوں کی آمدن اتنی نہیں ہے اور نہ تنخواہیں بڑھی ہے تو یہ رپورٹ تقریباً سچائی پر مبنی ہے کہ مڈل کلاس کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے ہیں۔

سجاد احمد مزید کہتے ہیں کہ  Consumer Price Indexکے حوالے سے اگر اعدادوشمار کا جائزہ لو تو خوراکی مواد کے علاوہ دیگر چیزیں اور سروسز بھی مہنگی ہوئی ہیں۔

گذشتہ تین سالوں میں یہ پیمانہ بھی اوپر گیا ہے اور اس میں اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ دوسری جانب حالات اتنے خراب ہیں کہ لوگوں کی آمدن نہیں بڑھ رہی اور قوت خرید تقریباً جواب دے گئی ہے۔

یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن جو متوسط طبقے کو رعایتی بنیادوں پر اشیائے ضروریہ فراہم کرتی ہے، نے یوٹیلیٹی سٹورز پر 100 کے لگ بھگ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔

سجاد احمد مزید کہتے ہیں کہ اگر معیشت کے اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو نہ تو تنخواہیں بڑھی ہے اور نہ ہی کاروباری مواقع پیدا ہوگئے بلکہ یہ مزید سکڑ گئے ہے۔
مزیدخبریں