دنیا کا ادب تو عورت اور اس کی مظلومیت سے بھرا پڑا ہے۔ میں نے بھی افسانوی اور فلمی کرداروں کی حد تک عورت کو شدید ترین مظلوم، بے بس، اور لاچار پایا تھا۔ میں اس حقیقت پر بھی یقین رکھنے والوں میں سے ہوں کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو مرد کے برابر تو کیا بلکہ ایک انسان کے طور پر بھی سہی معنوں میں تسلیم نہیں کیا جاتا۔
مجھے شاید آپ ان لوگوں کی صف میں شامل کر سکتے ہیں جو عورت کو ایک بہن، بیٹی، ماں یا بیوی سے پہلے ایک انسان کی حیثیت سے تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ میں نسوانی حقوق کا قائل ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عورت کسی بھی معاشرے کی ترقی میں مرد جتنا ہی اہم کردار ادا کر سکتی ہے، اگر انہیں مرد کے مساوی مواقع فراہم کئے جائیں۔
ہمارے معاشرے کا تو چلن ہی الگ ہے۔ اگر عورت اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرے تو وہ بدکردار، بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا، مغربی کلچر کو فروغ دینی والے، اسلام مخالف اور نجانے کیا کیا کہلائی جاتی ہے۔ میرے خیال سے ہاں ہر وہ عورت جو اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتی ہے وہ بد کردار ہے۔ وہ بد کردار ہی نہیں بلکہ عقل اور سوچنے اور سمجھنے سے عاری بھی ہے کیونکہ وہ ایک ایسے معاشرے میں اپنے حق کی بات کرتی ہے، جہاں اس کی گواہی تک کو آدھی گواہی مانا جاتا ہے۔
بہرحال یوں تو عورتوں کی مظلومیت کے قصے اور کہانیاں تو بے انتہا ہیں۔ لیکن، اُس وقت میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور میں حواس باختہ ہو گیا، جب مجھے ماریہ (فرضی نام) کی اس حقیقی کہانی کا علم ہوا۔
شاید، آج اگر منٹو زندہ ہوتا تو وہ اپنے تخلیق میں ماریہ کا ضرور اضافہ کرتا۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی جس نے عورت اور اس کے دکھ درد کو اپنی شاعری میں نمایاں جگہ دی، کیا پتا اگر آج شاہ لطیف ہوتے تو ماریہ اس کی آٹھویں سورمی ہوتی۔
ماریہ کی زندگی مسلسل دکھ، درد اور تکلیفوں کا وسیع ساگر ہے۔ شاید اس کچی سی عمر میں ہی دکھ، درد، تکلیفوں اور صعوبتوں کو اس نے اپنا اسیر بنا لیا ہے۔ ماریہ کوئی افسانوی کردار نہیں بلکہ ایک حقیقی زندگی میں وجود رکھنی والی ایک کچی عمر کی لڑکی کی سچی کہانی ہے جو آج تک دنیا کی سارے درد اور تکالیف ساتھ لئے جئے جا رہی ہے۔
تین سال پہلے تک ماریہ ایک مختصر سے خاندان جس میں اس کا والد، اس کی ماں اور بھائی شامل تھے دبئی میں ایک انتہائی شاندار زندگی بسر کر رہی تھی۔ اس کے والد دبئی میں ایک کاروباری شخصیت تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ماریہ کی ماں کی طبیعت بگڑنے لگی، جس کی وجہ سے ان کے خاندان کو دبئی چھوڑ کر لاہور اپنے آبائی علاقے آنا پڑا۔ جہاں پر کچھ وقت علیل رہنے کے بعد اس کی ماں جانبر نہ ہوسکیں۔
ماں کی آنکھ بند ہونے کے ساتھ ماریہ کے لئے گویا دکھ، درد اور تکلیفوں کا نہ ختم ہونے والا سیلاب شروع ہوگیا۔ والد کا کاروباری معاملات میں مصروف اور بھائی کا دوستوں کے ساتھ سارا دن گزارنے کی وجہ سے وہ اکیلی رہنے لگی۔ پھر ماریہ کی دادی کو اس کے والد کی دوسری شادی کی سوجھی اور یوں ماریہ کی کہانی میں سوتیلی ماں کا کردار شامل ہوگیا۔
اس ماں نے مکمل طور پر فلمی اور افسانوی کرداروں والی سوتن کا کردار ادا کیا۔ قتل کرنے کی کوشش، ہر طرح سے اذیت میں مبتلا کرنے، کئی دفعہ باقاعدہ گرم استری سے جسم کو جھلسایا گیا، بھوک اور پیاس میں رکھی گئی۔
سوتن ماں کی طرف سے شاید ہی کوئی اذیت ہو جو ماریہ کو نہ پہنچائی گئی ہو۔ اسی دوران اس کے والد اور بھائی نے بھی اس سے منہ موڑ لیا بلکہ شاید وہ اس کے وجود سے انکاری ہوگئے۔ اب بھائی کی طرف سے بھی تشدد اس کے لئے روز کا معمول بن گیا۔ ایک کالج کی لڑکی کے لئے شاید یہ سب کچھ ناقابل برداشت تھا۔ وہ اپنی کالج کی انتہائی ہونہار طالبعلم تھی۔ وہ کالج میں اچھے نمبروں سے پاس ہوئی۔ جس کے بعد لاہور کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں پر قابلیت کی بنا پر اپنی تعلیم کے دوسرے سال میں سٹوڈنٹ آف دی ایئر کے ایوارڈ سے نوازی گئی۔
کالج ختم کرنے کے فوراً بعد اس نے ننہال کو رخت صفر باندھ لیا جو لاہور میں تھے۔ شاید، اس نے سوچا ہوگا کہ ننہال میں اسے سکھ کا سانس لینا بالاخر نصیب ہو ہی جائے گا۔ لیکن، کسے معلوم ننہال میں اس کے لئے شانتی نہایت عارضی اور مختصر الوقت رہے گی۔
بہرحال، کچھ ہی وقت میں وہاں پر بھی مختلف طریقوں سے اس کے لئے مصیبتیں شروع ہو گئیں۔ سب سے پہلے ماریہ کی خالہ نے اس کا جینا اجیرن کر دیا۔ پھر یونیورسٹی میں اس کے ساتھ ایک انتہائی غیر انسانی سلوک کیا گیا، جس کا کرب وہ آج تک بردشت کر رہی ہے۔ فٹبال کا زوردار وار کر کے ماریہ کی ریڑھ کی ہڈی تقریباً توڑ دی گئی۔ اس حملے کے پس پردہ عناصر کسی طریقے سے جیل کی سلاخوں تک تو پہنچے لیکن رفتہ رفتہ انہیں قانون سے رہائی مل گئی۔
اس کے بعد ماریہ کی کہانی میں اس کی خالہ کی انٹری ہوئی لیکن وہ بھی اس کی خیر خواہ ثابت نہ ہوئی۔ ماریہ کے ساتھ غیر انسانی اور پل پل اذیت میں رکھنے کا معمول یہاں بھی برقرار رکھا گیا۔ ماریہ سانس اور گردوں کی تکلیف میں تو پہلے سے ہی مبتلا تھی اب یہ ریڑھ کی ہڈی کا مسئلہ بھی شامل ہو گیا۔
اس تکلیف میں اس کی خالہ کی طرف سے علاج کچھ اس طرح کرایا گیا جس سے تکلیف دوگنی ہوگئی۔ تکلیف کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی چلی گئی۔ ماریہ کی کہانی میں جو بھی آیا اس نے بھرپور نمونے اور اپنی پوری صلاحیت سے ولن کا کردار ادا کیا۔ گویا اس پوری دنیا میں ماریہ کا خیر خواہ کوئی نہیں تھا۔ ایسے میں اس کی ایک دوست نے اس کا ہاتھ تھاما اور ان تکالیف سے ریسکیو کرانے کی ٹھان لی۔
ماریہ نے اپنی خالہ کے گھر سے سامان سمیٹا اور اب اپنی دوست کے ساتھ رہنے لگی۔ اس دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ ماریہ کا علاج اس کی تکلیف کے متضاد چل رہا تھا اور اسی وجہ اس کی تکلیف شدید سے شدید تر اور مزید پیچیدہ ہوگئی۔
ابھی ماریہ علاج کے صحیح پٹڑی پر آئی ہی تھی کہ وہ کورونا کا شکار ہو گئی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ کالے جادو کے شدید گھیرے میں جکڑی جا چکی ہے۔
دکھ، درد، اذیت، تکلیف، کرب اور ان سے آگے بھی دکھوں کا یہی سلسلہ گویا رمز عظیم آبادی نے یہ شعر ماریہ کے لئے ہی کہا تھا کہ "یہ زندگی سزا کے سوا کچھ بھی نہیں"۔
ان ساری تکالیف، دکھ اور اذیتوں کو برداشت کرنے کے بعد ماریہ آج بھی لبوں پر مسکراہٹ لئے درگزر کا جذبہ رکھے زندگی جی رہی ہے کیونکہ ماریہ جینا چاہتی ہے۔
(نوٹ: یہ لاہور کی ایک میڈیکل یونیورسٹی میں پڑھنی والی طالبہ کی سچی کہانی ہے)۔