امپائر نے پوزیشن بدل لی، تبدیلی پارلیمنٹ کے اندر ہونے کا امکان، سیاسی منظر واضح، حکومت کے اعصاب شل

امپائر نے پوزیشن بدل لی، تبدیلی پارلیمنٹ کے اندر ہونے کا امکان، سیاسی منظر واضح، حکومت کے اعصاب شل
سینئر صحافی مرتضیٰ سولنگی اور مزمل سہروردی اس بات سے متفق ہیں کہ مسلم لیگ ن کی قیادت اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

ملکی سیاست پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے مزمل سہروردی نے کہا کہ کھیل بہت سادہ ہے۔ ٹائم لائن طے تھیں کہ چیزوں کو فروری یا مارچ تک سمیٹنا ہے۔ دوسری جانب عمران خان کا جس 'جن' پر تکیہ تھا، وہ ان کے قابو سے باہر ہو چکا ہے۔ ایمپائر نیوٹرل نہیں بلکہ دوسری سائیڈ پر آ چکا ہے۔ منظر نامہ کافی واضح ہو گیا ہے۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں تبصرہ کرتے ہوئے مزمل سہروردی نے کہا کہ پاکستان میں یہ رواج ہے کہ جب تک چاروں اسمبلیاں نہ ٹوٹیں، عام انتخابات نہیں ہو سکتے، اس لئے نواز شریف عدم اعتماد کے بعد فوری الیکشن کا مطالبہ ممکن نہیں رہا۔

انہوں نے بتایا کہ نواز شریف سمجھتے تھے کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد پی ٹی آئی کا ہی وزیراعظم لے کر آنا ہے تو عدم اعتماد بھی ان کے ہی اراکین سے کروائی جائے، ہم سے یہ گناہ کیوں کرواتے ہیں۔ تحریک انصاف والے خود اپنے لیڈر کیخلاف عدم اعتماد لائیں جبکہ اگر عدم اعتماد اپوزیشن نے ہی لانی ہے تو پھر وزیراعظم بھی ہمارا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لئے پیپلز پارٹی کیساتھ یہ طے کیا گیا ہے کہ میثاق جمہوریت کے قواعد وضوابط کو فالو کیا جائے گا جس میں درج ہے کہ جس کی زیادہ سیٹیں ہونگی اس کو وزیراعظم بنانے کا اختیار دیا جائے گا۔ تاہم اخلاقی طور پر پنجاب میں زرداری کو فری ہینڈ دے دیا گیا ہے کہ وہ جسے وزیراعلیٰ لانا چاہتے ہیں لائیں، یہ اب ان کی صوابدید ہے۔

پروگرام کے دوران چودھری برادران کے آئندہ سیاست میں اہم کردار بارے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ کبھی عمران خان سے خوش نہیں رہے۔ ان کا جھکائو مسلم لیگ ن کی جانب ہے۔ وہ پی ٹی آئی کیلئے آئندہ انتخابات میں مشکلات پیدا کرینگے۔ ان کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ن لیگ کیساتھ ہی ہوگی۔

پروگرام میں بات کرتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ مریم نواز کی ٹویٹ سے لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے اندر موجود اختلافات ختم یا بڑی حد تک دور ہو گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف کی جانب سے کچھ لچک دکھائی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ دنوں پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ شہباز شریف میں جو اعتماد جھلک رہا تھا وہ سب نے دیکھا۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ سیاسی درجہ حرارت پچھلے ساڑھے تین سالوں میں اتنا نہیں بڑھا۔ لگتا یہی ہے کہ کوئیک مارچ پارلیمنٹ میں ہو جائے گا۔ حکومت کے اعصاب شل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے جوابی جلسوں کا اعلان کر دیا ہے۔ جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو وہ ایسی ہی حرکتیں کی جاتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تو بہت تگڑے حکمرانوں کو اقتدار سے جاتے دیکھا۔ عمران خان تو پاکستان کی تاریخ میں رسمی طور پر منتخب ہونے والے سب سے غیر مقبول وزیراعظم ہیں۔

تاہم انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کس کیخلاف ہوگی۔ کیسے ہوگی۔ کون اس میں شریک ہوگا۔ ترین گروپ اور باقی اتحادی اس میں کیا کردار ادا کرینگے۔ یہ تمام چیزیں تو صاف ہو چکی ہیں لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کہ عمران خان کے جانے کے بعد ملک کا سیاسی ڈھانچہ کیسا اور کتنی مدت کیلئے ہوگا؟ اسلام آباد میں اقتدار کس کے ہاتھ میں جائے گا اور لاہور میں کون ہوگا؟

انہوں نے کہا اگر تحریک عدم اعتماد ناکام بھی ہو جاتی ہے تو اس کے باوجود عمران خان مضبوط نہیں ہو سکیں گے کیونکہ اب ان کا سورج ڈوبنے کو ہے۔ وہ صرف صحت کارڈ سے اپنی مقبولیت کو نہیں بچا سکتے۔

دوسری جانب رضا رومی کا موقف تھا کہ عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی باتیں بہت عرصے سے کی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے مسلم لیگ ن کی قیادت گفت وشنید میں مصروف ہے۔ یہ اقدام کب اٹھایا جائےگا۔ سب کی نظریں اس جانب لگی ہوئی ہیں۔

رضا رومی کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ سب انتظار میں ہیں کہ چڑیاں کب منڈیر سے اڑتی ہیں۔ شیر آیا، شیر آیا، شیر آیا، ہم ساڑھے تین سال سے سن رہے ہیں کبھی نہ کبھی تو ایسا ہو ہی جائے گا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ عمران خان ابھی بھی وزیراعظم ہیں۔ وہ اپنے آئینی اختیارات استعمال کر سکتے ہیں۔ جب ان کیخلاف کچھ ہوگا تو سب کو دکھائی دے گا۔ وہ اپنا ماسٹر سٹروک بھی کھیل سکتے ہیں۔