بلوچستان میں ملازمتوں پر بھرتیوں کا طریقہ کار جعل سازی پر مبنی ہے

بلوچستان میں ملازمتوں پر بھرتیوں کا طریقہ کار جعل سازی پر مبنی ہے
کرکٹ کے ایک آزمائشی میچ کے لئے 11 کروڑ روپے دینے والا بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جہاں 3 لاکھ ملازمین موجود ہیں اور ان ملازمین پر سالانہ بجٹ کا 80 فیصد حصہ خرچ ہوتا ہے مگر یہ ملازمین حکومتی محکموں میں نئے افراد کو خود بھرتی کرنے کی استعداد نہیں رکھتا۔ حکومت اور نظام چلانے کے نام پر نوکری کرنے والے ان تقریباً 3 لاکھ افراد میں نائب قاصد سے گریڈ 22 تک کے سبھی افسران شامل ہیں جنہوں نے حکومتی معاملات کے ساتھ ساتھ عوامی مسائل کو بھی دیکھنا ہے لیکن شومئی قسمت کہ بھرتی کا عمل یہاں پر نظام کے کماؤ لوگوں کی آمدنی میں اضافے کی وجہ بن گیا ہے اور پھر یوں ہوا کہ جب ان 3 لاکھ لوگوں سے بھرتیوں کا عمل احسن طریقے سے انجام نہ دیا جا سکا تو مخصوص ایک دو کمروں تک وجود رکھنے والی ٹیسٹنگ کمپنیوں نے ان 3 لاکھ ملازمین کی فوج ظفر موج کی ذمہ داری بھی اپنے ذمے لے لی اور یوں ٹیسٹنگ سروس کے نام پر دو کمروں میں وجود رکھنے والے افراد نے کھربوں کا بجٹ خرچ کرنے والے لاتعداد زمینوں بلڈنگوں کے مالک بن کر کام شروع کر دیا جو تاحال جاری و ساری ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم جس نظام پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں اس کو دوبارہ دیکھنے کی ضرورت نہیں؟ چار کمپیوٹر اور چار لوگوں پر مشتمل کمپنی 80 ہزار ملازمین کی محکمہ تعلیم میں بھرتی کے لئے خود کو پیش کر دیتی ہے اور نظام کے نام پر مسلط نااہل ڈمی کردار لوگ اس کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ وہ محکمہ ہے جس نے مستقبل کے بلوچستان کا بوجھ کندھوں پر لینے والی نسل تیار کرنی ہے۔ اسی محکمہ میں جعل سازی پر مبنی بھرتیاں ہو جاتی ہیں۔ نااہل اور پیسہ پھینک تماشا دیکھ والے لوگوں کو پانچ ہزار لوگوں کو استاد کا مقدس لبادہ مخصوص ایک صفحے کی ایم سی کیوز کے حل کو بنیاد بنا کر پہنایا جاتا ہے۔ اس پر کچھ اچھے لوگ اعتراضات اٹھاتے ہیں اور اس کو صوبے کے ساتھ ظلم قرار دیتے ہیں لیکن معاملات بدستور اسی سمت میں چلتے رہتے ہیں جس سمت میں جانے سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یہاں تک کہ بدقسمتی سے عبایا برقعہ جبا پہنے ہوئے لوگ بھی اس مستقبل کش منصوبے میں اپنا حصہ لے کر اس کی توثیق کرتے ہیں۔ ایسے میں مدلل آوازوں والے نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں اور ان کو یہ لگتا ہے کہ پارلیمان کی یہ جعلی سیاست اور آئینی عہدوں پر میرٹ کے بجائے من پسند افراد کی تعیناتیاں عام آدمی کو کمزور اور نظام کو بوسیدہ کرنے کیلئے بنائے گئے بندوبست ہیں۔ حیران کن طور پرعوام کی بے پناہ خاموشی مدلل آوازوں کو خاموش کرنے یا پھر پاگل ثابت کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ بلوچستان میں تعلیم کے شعبے کے ساتھ ان کمپنیوں نے کھلواڑ شروع کر دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ یہ کمپنیاں صوبے کے دور دراز علاقوں سے کمزور تعلیمی میدان میں سکولوں سے لے کر کیڈٹ کالجز میں داخلوں کے خواہشمندوں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں اور رہی سہی کسر بھی ختم کر دی جاتی ہے اور میرٹ کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔

بلوچستان کے کیڈٹ کالجز جنہوں نے ماضی میں بلوچستان کے شعبہ تعلیم میں ایسے نام پیدا کیے ہیں جن پر آج بھی بلوچستان فخر کر رہا ہے، کے داخلے کا طریقہ کار بھی ان مافیاز کے ٹیسٹنگ سسٹم کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور یوں ملازمت کے حصول سے لے کر کالج میں داخلے تک کا طریقہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔

ٹیسٹنگ مافیا کی واردات کا طریقہ بڑا دلچسپ ہے۔ یہ اپنے من پسند لوگوں کو تین شیٹ جو فراہم کرتے ہیں اس میں جواب والی شیٹ پر مارکر کی مدد سے کسی بھی جواب پر نشان لگانے کا کہہ دیا جاتا ہے جس سے نیچے دو شیٹ تک یہ نشان نہیں پہنچا اور اس کو بعد میں کمپنی خود نشانات لگا کر امیدواروں کو کامیاب کروا دیتی ہے۔ کچھ یہی صورت حال بلوچستان کے مرکزی ہسپتال سول ہسپتال کوئٹہ کی بھرتی کے عمل میں دہرائی جا رہی ہے جہاں برن یونٹ میں ڈاکٹر، فارماسسٹس اور پیرامیڈیکس کو ٹیسٹنگ کمپنی کے ذریعے کنٹریکٹ پر بھرتی کا عمل شروع کرنے کے لئے اخبارات میں اشتہار دے دیا گیا ہے تاکہ من پسند کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کر کے ان سے معاہدہ کیا جائے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں قانونی طور پر لازم ہے کہ 16 گریڈ یا اس سے اوپر کی ملازمتیں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پر کرنا لازمی ہے لیکن یہ سب بھینس کے آگے بین بجانا ہے۔

بایزید خان خروٹی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں اور صوبے کے مسائل سے متعلق لکھتے رہتے ہیں۔