ڈان میں شائع ہوئی رپورٹ کے مطابق نے وفاقی حکومت میں ایک قابل اعتماد ذرائع کا کہنا ہے کہ اتحادی جماعتیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ممکنہ طور پر اس سال اکتوبر-نومبر میں ایک ساتھ کرانے پر متفق ہیں۔
ذرائع نے پنجاب اور کے پی کے گورنرز کے درمیان ہونے والی ایک اہم میٹنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس اہم میٹنگ میں نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی شرکت کی۔جس میں شرکاء نے 'موجودہ حالات' کے پیشِ نظر مل کر انتخابات کرانے پر اتفاق کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اس سال اگست میں اپنی مدت پوری کر رہی ہے، اسی وقت انتخابات کرائے جائیں۔
پنجاب کے گورنر بلیغ الرحمان نے پیر کو لاہور میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دو الگ الگ انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس انتخابی سرگرمیوں پر اربوں روپے خرچ ہوں گے۔ اہم اجلاس کے شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ موجودہ حالات میں صوبوں کے لیے علیحدہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔
ایک روز قبل پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے کہا تھا کہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے 90 دن کے اندر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات نہ ہوئے تو "جیل بھرو تحریک" حرکت میں آئے گی۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ مذکورہ مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد نہ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہوگی اور کہا کہ ایسا کرنے والے آرٹیکل 6 کے اطلاق کے ذمہ دار ہوں گے۔
عمران خان کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ جیسے ہی پاکستان تحریک انصاف اپنی "جیل بھرو تحریک "شروع کرے گی،حکومت پی ٹی آئی سربراہ کو تحویل میں لینے کے لیے تیار ہے۔ عمران نے گزشتہ سال اکتوبر میں بھی اسی طرح کی تحریک چلائی تھی تاکہ حکومت پر اسنیپ پولز کا اعلان کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔ اس کے علاوہ، 2014 کے دھرنے کے دوران، انہوں نے اپنے حامیوں سے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کو کہا تھا۔