پاکستان کی درخواست پر سندھ طاس معاہدے پر ثالثی کا آغاز

02:24 PM, 7 Feb, 2023

ڈائیلاگ ارتھ
بھارت نے پاکستان کو آگاہ کیا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کرنا چاہتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان 1960میں اس معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے، جس میں عالمی بینک بطور ضامن شامل ہوا تھا تا کہ یہ دونوں ممالک اپنے مشترکہ دریاؤں کے استعمال کو متفقہ اصولوں کے تحت کنٹرول کرسکیں۔ جیسا کہ دی وائر نے رپورٹ کیا ہے، بھارت کی طرف سے پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ 90 دنوں کے اندر بین الحکومتی مذاکرات شروع کرے تاکہ سندھ طاس معاہدے کی سنگین خلاف ورزی (معاہدے کے مقصد یا مقصد کی تکمیل کے لیے ضروری شق کی خلاف ورزی) کو درست کیا جا سکے۔ یہ عمل پچھلے 62 سالوں میں سیکھے گئے اسباق کو شامل کر کے سندھ طاس معاہدے میں ضروری اصلاحات کا باعث بھی بنےگا۔

1988سے بھارت اور پاکستان اس معاہدے کے حوالے سے کئی بحثوں میں الجھ چکے ہیں اور اب یہ اسی پرانے تناؤ کی نئی شروعات ہے۔ یہ اختلاف اس وقت شروع ہوا جب بھارت نے دریائے جہلم کی معاون ندی (دریا کا معاون یا جھیل میں گرنے والا دھارا) پر کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی منصوبہ بندی شروع کی۔ جہلم دریائے سندھ کی ان تین مغربی معاون ندیوں میں سے ایک ہے جس کا پانی معاہدے کے تحت پاکستان کے استعمال کے لئے سمجھا جاتا ہے۔ بھارت کو منصوبے بنانے کی اجازت ہے لیکن ان دریاؤں پر پانی کے بہاؤ کو محدود کرنے کی نہیں، جبکہ وہ سندھ کی تین مشرقی معاون ندیوں کے ساتھ جیسا چاہے کر سکتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت، بھارت کو مغربی
معاون ندیوں پر بننے والے کسی بھی منصوبے کے ڈیزائن کے بارے میں پاکستان کو پیشگی مطلع کرنا ہوتا ہے، اگروہ منصوبے پاکستان میں پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ کا باعث بن رہے ہوں۔

انڈس واٹرٹریٹی کیا ہے؟

پاکستان نے کشن گنگا پراجیکٹ پر اعتراض کیا کیونکہ اس منصوبے کے ڈیزائن میں جہلم کی ایک معاون ندی سے دوسری معاون ندی میں پانی کا رخ موڑنے کا خیال اپنایا گیا تھا۔ دریں اثنا، پاکستانی حکومت کا دریائے نیلم (کشن گنگا کو پاکستان میں نیلم کہا جاتا ہے) پر ایک ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ بنانے کا اپنا منصوبہ تھا جسے نیلم جہلم پروجیکٹ کہتے ہیں۔ اگرچہ 330 میگا واٹ کے کشن گنگا پراجیکٹ کےدریائے نیلم پر بننےسے پاکستان میں پانی کے مجموعی بہاؤ میں کمی نہیں اۤئے گی لیکن بھارت کا یہ منصوبہ نیلم جہلم پراجیکٹ کے لئے پانی کے بہاؤ کو محدود کردے گا۔

بھارت کی جانب سے کشن گنگا پراجیکٹ پر سروے شروع کرنے کے ایک سال بعد پاکستان نے 1989 میں اپنے منصوبے کے ڈیزائن کی منظوری دی تھی جبکہ اسکی تعمیر 2007 میں شروع ہوئی اور نیلم جہلم پراجیکٹ 2018 میں مکمل ہوا۔ بھارت کی جانب سے سرنگوں پر کام 2004 میں شروع ہوا جب کہ ڈیم کی تعمیر 2007 میں شروع ہوئی تھی۔ بھارت نے ثالثی عدالت (ایسی عدالت جس میں فریقین یعنی دو ممالک کے درمیان جھگڑے کا فیصلہ کیا جاتا ہے) کو بلانے کے لئے پاکستان کے مطالبے پر رضامندی ظاہر کی۔ سال 2010 میں پہلی اور اۤخری بار اس طرح کی عدالت کا انعقاد کیا گیا اور بھارت کی جانب سے 2010 میں کام روک دیا گیا تھا۔ بھارت نے پھر کام دوبارہ شروع کیا جب ثالثی عدالت نے 2013 میں اس کے حق میں فیصلہ دیا۔

اس معاملے میں پاکستان کا موقف یہ تھا کہ نیلم جہلم پراجیکٹ پر کام نہیں ہو سکے گا کیونکہ بھارت اپنے منصوبوں کے لئے پانی کو دریا سے دور کرے گا اور پھر اسے نیلم جہلم پراجیکٹ کی سائٹ کے نیچے چھوڑے گا۔ بھارت نے جواب دیا کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی شرائط پر قائم ہے کیونکہ وہ پاکستان کا پانی روک نہیں رہا تھا، اور یہ کہ اسکے منصوبے نیلم جہلم پراجیکٹ سے پہلے کے تھے۔

اپنے 2013 کے فیصلے میں ثالثی عدالت نے حقائق کو بڑی حد تک پاکستان کے اعتراضات کے خلاف پایا لیکن بھارت سے کہا کہ وہ اپنے ڈیموں کے ڈیزائن میں کچھ ترمیم کرے۔

انڈس واٹرس ٹریٹی (سندھ طاس معاہدے) کے تنازعات کے حل کا طریقہء کار:

جب 1960 میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوئے تو ایک انڈس ریور کمیشن قائم کیا گیا، جس میں بھارت اورپاکستان کے کمشنرز شامل تھے۔ ان حالات میں جب بھارت اور پاکستان متفق نہ ہوں اور مسئلے کا حل کمشنرز سے نہ نکل سکے تومعاہدے میں تنازعات کے حل کے دو طریقہ کار ہیں: ایک غیر جانبدار ماہر کی تقرری اور دوسرا ثالثی عدالت۔ جیسا کہ ورلڈ بینک وضاحت کرتا ہے ، سوالات” کمیشن کے ذریعے نمٹائے جاتے ہیں۔ “اختلافات” کو ایک غیر جانبدار ماہر کے ذریعے حل کرنا ہے۔ اور “تنازعات” کو ثالثی عدالت (سات رکنی ثالثی سے متعلق عدالت )کو بھیجا جائے گا۔

جب 1960 میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوئے تو ایک انڈس ریور کمیشن قائم کیا گیا، جس میں بھارت اور پاکستان کے کمشنرز شامل تھے۔ ان حالات میں جب بھارت اور پاکستان متفق نہ ہوں اور مسئلے کا حل کمشنرز سے نہ نکل سکے تومعاہدے میں تنازعات کے حل کے دو طریقہ کار ہیں: ایک غیر جانبدار ماہر کی تقرری اور دوسرا ثالثی عدالت۔ جیسا کہ ورلڈ بینک وضاحت کرتا ہے، “سوالات” کمیشن کے ذریعے نمٹائے جاتے ہیں۔ “اختلافات” کو ایک غیر جانبدار ماہر کے ذریعے حل کرنا ہے۔ اور “تنازعات” کو ثالثی عدالت (سات رکنی ثالثی سے متعلق عدالت) کو بھیجا جائے گا۔

ثالثی عدالت کی سماعت کے دوران، بھارت نے ایک اور نکتے پر استدلال کیا تھا کہ ثالثی عدالت صرف اس وقت بننا چاہیئے جب کسی مسئلے کو پہلے کسی غیر جانبدار ماہر کے ذریعہ نمٹانے کی کوشش کی جائے۔ 2013 کے ثالثی عدالت کے فیصلے نے اسے مسترد کر دیا۔ عدالت نے مزید کہا کہ ایک تنازعہ واضح طور پر موجود ہے، اور وہ “بھارت کی موجودہ پوزیشن کو قبول نہیں کر سکتی اور دوسرا تنازعہ ایک غیر جانبدار ماہر کا معاملہ ہے اور بھارت اب ایسے ماہر کی تقرری کی درخواست کرے۔” اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت نے اصرار کیا تھا کہ کوئی “اختلاف” موجود نہیں ہے، اور جب کہ “اختلافات” سے نمٹنے کے لیے ایک غیر جانبدار ماہر کا تقرر کیا گیا تھا، معاہدے کی شقوں کے مطابق صرف ثالثی عدالت ہی “تنازعات” سے نمٹ سکتی ہے۔

فیصلے کے بعد، بھارت نے یہ منصوبہ مکمل کیا، اور یہ 2018 میں زیر عمل ہو گیا۔ پاکستان نے الزام لگایا کہ بھارت نے 2013 کے فیصلے کے مطابق ڈیزائن کی تفصیلات پر عمل نہیں کیا، اور جب بھارت نے 2013 میں دریائے چناب پر (بہت بڑا) 850 میگاواٹ کا ریٹل ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ شروع کرنے کا فیصلہ کیا (جبکہ فنڈز کو اصل میں صرف 2021 میں ہی مختص کیا گیا)۔ پاکستان نے 2015 میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک غیر جانبدار ماہر سے درخواست کرنے کا فیصلہ کیا۔ 2016 میں اس نے اس درخواست کو واپس لے لیا، اور اس کے بجائے، 22 اگست 2016 کو مسئلے سے نمٹنے کے لئے عالمی بینک کو ثالثی عدالت تشکیل دینے کو کہا۔

بھارت نے 4 اکتوبر 2016 کو اس تنازعے سے نمٹنے کے لئے ایک غیر جانبدار ماہر کی تقرری کی درخواست کرتے ہوئے پاکستان کو جواب دیا۔ بھارت کے اس عمل نے عالمی بینک کو، جو کہ معاہدے کا ضامن ہے ایک مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا۔ معاہدہ واضح طور پر کہتا ہے کہ ثالثی عدالت کی دیگر کوششیں، اس “اختلاف” پر لاگو نہیں ہوتی ہیں جسے فی الحال ایک غیر جانبدار ماہر کے ذریعے حل کیا جا رہا ہے۔ بہر حال، سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کو ثالثی عدالت کی درخواست کو مسترد کرنے کا اختیار نہیں دیتا ہے اگر کوئی غیر جانبدار ماہر پہلے ہی “اختلاف” کا جائزہ نہیں لے رہا ہے، اوراگر کسی کو بھی مقرر نہیں کیا گیا۔

عالمی بینک کا کردار طریقہ کار کے مطابق سختی سے عمل کرنے پر مبنی ہے، اور وہ کسی بھی درخواست کو مسترد نہیں کر سکتا۔ اور ابھی تک ایک ہی تنازعہ پردو طریق عمل کا ہونا مقاصد کو ایک دوسرے سے متصادم کردے گا۔ تضادات کو سنبھالنے کی کوشش میں، ورلڈ بینک نے دونوں طریقہ کار کو شروع میں جنوری 2017 تک اور پھر کئی سالوں تک روک دیا ۔ اس سارے عرصے کے دوران بھارت نے یہ دلیل دی ہے کہ دو طریقِ عمل کی تخلیق سے خود معاہدہ خطرے میں ہے، اور یہ کہ پہلے ایک غیر جانبدار ماہر کا تقرر کیا جانا چاہیے۔

بھارت اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ رہنے کی وجہ سے اس مسئلے پر پیش رفت نہیں ہوئی۔ 6 اپریل 2022 کو متعدد ملاقاتوں اور اعلیٰ سطحی بات چیت کے بعد عالمی بینک نے تنازعات کے حل کے دونوں طریق عمل کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ دلیل دی کہ، “فریقین کے خدشات کے زیر نظر دونوں تقرریوں کو بیک وقت انجام دینے سے عملی اور قانونی خطرات لاحق ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران قابل قبول حل تلاش کرنے میں ناکامی بھی معاہدے کے لیے خطرہ ہے۔”

ایک نیاپریشان کن معاملہ:

اب اس معاملے کو دوبارہ اٹھا کر بھارت نے اس معاملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی ہے اور یہ دلیل دی ہے کہ یہ پاکستان کی ہٹ دھرمی ہے اور وہ مسئلے کا ذمہ دار ہے۔ بالائی دریائی ملک کے طور پر بھارت کو مذاکرات کی مضبوط پوزیشن حاصل ہے۔ اس کی تعمیراتی سرگرمیاں پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کو محدود، یا موڑ سکتی ہیں، جبکہ پاکستان بھارت میں پانی کے اوپری حصے کو متاثر نہیں کر سکتا۔ پاکستان کا واحد سہارا سندھ طاس معاہدہ ہے۔

حال ہی میں ہیگ میں سی او اے (معاہدے کے تحت ثالثی عدالت) کی کارروائی شروع ہوئی ہے لیکن بھارت نے اس میں حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے اٹارنی جنرل کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق، یہ تنازعہ بھارت کی جانب سے دریائے جہلم پر 330 میگاواٹ کے کشن گنگا منصوبے کی تعمیر اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دریائے چناب پر 850 میگاواٹ کے رتلے منصوبے کی تعمیر کے منصوبے پر ملک کی جانب سے اٹھائے گئے خدشات سے متعلق ہے۔

لیکن ہائیڈرو ڈپلومیسی (ایسے بین الاقوامی تعلقات جس میں پانی کے مسائل دو ملکوں کے درمیان اہم ہوں ) کے اس انداز کے سندھ طاس سے باہر اہم علاقائی نتائج ہو سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت بذات خود دوسرے اہم عبوری دریا کے طاسوں میں ایک نشیبی دریا کا ملک ہے۔ بھارت میں برہما پترا پر چینی ڈیموں کی تعمیر کے بارے میں بہت زیادہ تشویش کا اظہار کیا گیا ہے (جسے یارلنگ سانگپو کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ یہ تبت سے بہتا ہے) حالانکہ برہما پترا کا زیادہ تر پانی معاون ندیوں کے ذریعے بھارت اور بھوٹان میں تقسیم ہوتا ہے۔ اور پھر بنگلہ دیش آتا ہے۔ یہ گنگا کے بارے میں درست نہیں ہے۔ گھاگھرا، جو نیپال سے بھارت میں بہتا ہے، ایک اہم معاون ندی
ہے، اور اس کا پانی بِہار میں داخل ہوتا ہے، جہاں اوپر کی طرف گنگا کا زیادہ تر پانی بھارت کے اندر استعمال ہوچکا ہے یا ڈیموں کے ذریعے اس کا رخ موڑ دیا گیا ہے۔ چین نیپال کے دریائے مابجا زانگبو پر بھی ڈیم بنا رہا ہے،جو گھاگھرا میں ملتا ہے۔

گزشتہ چند سالوں میں چین نے بڑی حد تک میکونگ دریا کے سلسلے میں زور دیا ہے کہ اوپری دریا کے ملک کی ضروریات اور خدشات کو زیریں دریا کے ممالک کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا چاہیے۔ یہ ‘باہمی عمل’ بین الاقوامی گزرگاہوں کے غیر بحری استعمال کے قانون کے آبی کنونشن اور اسکی زبان سے متصادم ہے جس پر چین، بھارت اور پاکستان دستخط کنندہ نہیں ہیں۔کنونشن میں کہا گیا ہے کہ ” آبی گزرگاہوں والی ریاستیں اپنے علاقوں میں ایک بین الاقوامی آبی گزرگاہ کا استعمال کرتے ہوئے دیگر آبی گزرگاہوں والی ریاستوں کو زیادہ نقصان پہنچنے سےروکنے کے لیے تمام مناسب اقدامات کریں۔

سندھ طاس معاہدے پر انہی اصولوں پر بات چیت کی گئی تھی جیسے اقوام متحدہ کے کنونشن میں کی گئی۔ اگرچہ کوئی بھی ملک ان پر دستخط کرنے والا نہیں ہے، لیکن بھارت کی موجودہ حکمت عملی میکونگ میں چین کی حکمت عملی کے قریب ہے جو کہ زیریں دریا پر بالائی دریا کی طاقت کو ظاہر کرتی ہے۔ کیس کی خوبیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جیسا کہ پہلی ثالثی عدالت میں بھی فیصلہ بھارت کے حق میں ہونے کا ایک اچھا موقع تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہائیڈرو پلومیسی کا یہ قوم پرستانہ انداز کہاں لے جائے گا، اور تقریباً 1.5 ارب لوگوں کے لیے اس کا کیا مطلب ہے جو ہمالیہ کے مشترکہ دریائی طاسوں پر انحصار کرتے ہیں۔

دریا سرحدوں کا احترام نہیں کرتے اور نہ ہی کسی عبوری طاس کی صحت کا انتظام صرف بالائی دریا کے ممالک کر سکتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ اس بحران سے بچ سکتا ہے کیونکہ اسے صرف دونوں ممالک کے معاہدے سے ہی منسوخ یا تبدیل کیا جا سکتا ہے، جس کا پاکستانی اٹارنی جنرل نے گزشتہ ہفتے خبروں کے جواب میں حوالہ دیا تھا۔ بہر حال، ایک معاہدہ صرف اسی وقت اچھا ہو سکتا ہے جب کہ دستخط کنندگان اس پر رضامندی سے عمل درآمد کریں۔ اگر تعاون کو فروغ دینے کے بجائے اسے ایک اور راستے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جہاں ریاستوں کے درمیان دشمنی کو ہوا دی جائے تو یہ بین الاقوامی تعاون کو مزید مشکل بنا دے گا۔ اور یہ تمام لوگوں کو خواہ وہ کسی بھی قومیت کے ہوں اور ان دریا کے طاسوں کے ساتھ رہتے ہوں بہت سے خطروں سےدوچار کر دے گا جیسے جیسے آب و ہوا کا بحران بڑھے گا۔
مزیدخبریں