جون اور اگست 2022 کے درمیان، پاکستان نے اپنی 75 سالہ تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کیا۔ موسم بہار میں خشک سالی کے ساتھ گرمی کی ایک طویل لہر، اور اس کے بعد ‘عفریتی مون سون ‘ بالآخر 1961 کے بعد سے بدترین بارشوں والے اگست کی شکل میں سامنے آیا۔ گلیشیرز کے پگھلنے، بحر ہند میں سطح سمندر کے درجہ حرارت میں اضافے، لا نینا، اور ناقص انتظامات کی وجہ سے ایسی تباہی ہوئی جس کا تجربہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔
بلوچستان اور سندھ کے صوبوں میں بالترتیب اوسط سے 726 فیصد اور 590 فیصد زیادہ بارش کی وجہ سے میدان اندرون علاقہ جھیلوں میں تبدیل ہو گئے۔ شمالی پاکستان کے ہندوکش- قراقرم- ہمالیہ کے علاقے میں تقریباً 75 برفانی جھیلوں کے سیلاب (جی ایل او ایفس) کی اطلاع ملی۔
پاکستان کے 2022 کے سیلاب کی سب سے حیران کن خصوصیت اسکا نقطہ آغاز تھا، جو کوہ سلیمان پہاڑی سلسلے سے نکلا تھا، جہاں عام طور پر جنوبی ایشیائی مون سون نہیں ہوتا۔ یہ خطے کے مون سون پیٹرن میں جغرافیائی تبدیلی کا تشویشناک اشاریہ ہے۔
پیمائش اور غلط پیمائش، نقصان اور تباہی:
ورلڈ بینک نے 2022 میں پاکستان میں آنے والے سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات اور تباہی کا تخمینہ 30 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ لگایا، جو انفراسٹرکچر، زراعت اور مختلف شعبوں پر مشتمل ہے۔ دریں اثنا، بحالی اور تعمیر نو کے لئے کل ضروریات کے تخمینے کے مطابق مزید 16.3 بلین امریکی ڈالر کی لاگت کا اضافہ ہوا۔
تاہم، یہ تجزیہ گمراہ کن ہے کیونکہ یہ براہ راست اخراجات سے آگے نقصان اور تباہی پر روشنی ڈالنے میں ناکام رہا ہے۔ غیر مادی حقائق، ہمارے قدرتی سرمائے سے متعلق غیر معاشی نقصانات اورتباہی، ساتھ ہی بے روزگاری، کھوئی ہوئی آمدنی اور نقل مکانی کی لاگت، بڑی حد تک نظر انداز کردیے گۓ ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ 30 بلین امریکی ڈالر کا تخمینہ ایک سنگین کم قدر ہے اور اس میں قدرتی ماحولیاتی نظام کو پہنچنے والے نقصان، اور فلاح و بہبود اور اقتصادی سرگرمیوں میں ان کے حصّے کا کوئی حساب نہیں ہے۔ ان میں زرگل کی منتقلی، کاربن کشیدگی، اور آب و ہوا کا انضباط شامل ہے، یہ سب سیلاب کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔
چونکہ ہم ان خدمات کے لیے فطرت کو کوئی ‘ادائیگی’ نہیں کرتے، اس لئے اقتصادی حسابات میں انھیں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر، ان ماحولیاتی نظام کی خدمات کی مالیت ایک اندازے کے مطابق 125-140 ٹریلین امریکی ڈالر سالانہ ہے، جو عالمی گروس ڈویلپمنٹ پروڈکٹ (جی ڈی پی) کے حجم سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ اور پھر بھی وہ ہمارے منصوبہ بندی کے عمل کے دوران معاشی حسابات میں شاذ و نادر ہی شمار ہوتے ہیں۔
جی ڈی پی ایک پرانا میٹرک ہے جو ماحولیاتی نظام کی صحت اور ایکو سسٹم سروسز کے اہم کردار کو نظر انداز کرتا ہے:
ایک اندازے کے مطابق، اگر مناسب انتظامات نہ کئے گۓ تو، 2050 تک پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی میں ماحولیاتی خطرات اور ماحولیاتی انحطاط کے نتیجے میں 18-20 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اور پھر بھی یہ چیلنج سے نمٹنے کا ایک محدود طریقہ ہے۔ ماحولیاتی خطرات، نقصانات اور تباہی کو جی ڈی پی کے ساتھ جوڑنا غلط ہے۔ خاص طور پر، یہ ماحولیاتی نظام کی صحت اور انسانی اور اقتصادی بہبود کی سپورٹ میں ماحولیاتی نظام کی خدمات کے اہم کردار کو نظر انداز کرتا ہے۔ اس سے انسانی بہبود کو ٹریک کرنے اور جانچنے کی صلاحیت محدود ہوتی ہے، اور جی ڈی پی پر انحصار کرنے کے نتیجے میں ترقی اور تعمیر کے راستے گمراہ ہوتے ہیں۔
اسوقت بعد از تباہی کے منظر نامے میں، جی ڈی پی سے آگے بڑھنا مزید ضروری ہوگیا ہے۔ بحالی کی کوششیں جیسے کہ مکانات، پلوں اور سڑکوں کی تعمیر نو مختصر مدت کے لئے جی ڈی پی کی شرح نمو کو بڑھاتی ہیں۔ جی ڈی پی صرف وہی شمار کرتا ہے جو بنایا گیا ہے، وہ نہیں جو برباد ہو گیا ہے۔ اس سے خوشحالی کا مغالطہ پیدا ہوتا ہے۔ تاہم، حقیقت میں، قوم کے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں، کیونکہ تباہی کے نتیجے میں زمین کی تنزلی، پانی کے بگڑتے معیار اور حیاتیاتی تنوع کے نقصانات کے نتیجے میں معیشت میں فطرت کی شراکت کم ہو سکتی ہے۔ ماحولیاتی نظام اور معاشرے کے بیچ صحت مند فنکشننگ میں کمی کے نتیجے میں پیداواری صلاحیت کم ہوتی ہے، جبکہ زمین کی تمام مخلوقات مستقبل کے موسمیاتی جھٹکوں کے مقابلے میں مزید غیرمحفوظ ہوجاتے ہیں۔
نئے میٹریکس گرین ریکوری میں مددگار ہوسکتے ہیں:
معاشی ترقی اور فلاح و بہبود کی پیمائش کس طرح کی جاسکتی ہے اس میں تبدیلی کے بغیر، پاکستان اس حقیقت سے منہ موڑ رہا ہے کہ وہ مزید غریب اور مستقبل کی موسمیاتی تبدیلیوں، کساد بازاری اور وبائی امراض کے آگے غیرمحفوظ ہوتا جا رہا ہے۔ چین اور نیوزی لینڈ میں بالترتیب پائلٹ کئے جانے والے گروس ایکو سسٹم پروڈکٹ اور لیونگ اسٹینڈرڈ فریم ورک جیسے اشاریوں نے تمام آبادیوں میں خوشی اور بہبود کو ٹریک کرنے اور بڑھانے میں زبردست کردار ادا کیا ہے۔ اس کو پاکستان کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
سال 2022 کے سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے مصائب نےآب و ہوا سے پاکستان کی غیر محفوظیت کی طرف عالمی توجہ مبذول کرائی۔ جنوری کے اوائل میں جنیوا میں ہونے والی ایک کانفرنس میں، عالمی برادری نے رزیلینٹ ریکوری، ری-ہیبیلیٹیشن اینڈ ریکنسٹرکشن فریم ورک کے مطابق، پاکستان کی سیلاب سے بحالی کے لئے 9 بلین امریکی ڈالر سے زائد کا وعدہ کیا۔ یہ جتنا ہم آہنگ لگتا ہے، ان میں سے تقریباً 90فیصد وعدے مبینہ طور پر قرضوں کی شکل میں کثیر جہتی امداد ہیں، جو اگلے تین سالوں میں جاری کی جائیں گی۔ پاکستان پر پہلے ہی قرضوں کا بھاری بوجھ ہے، جس میں 23 بلین امریکی ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور 2023 کے مالی سال کے لئے 10 بلین امریکی ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی پیشن گوئی شامل ہے۔ مزید قرضوں کا بوجھ قطعا درست نہیں۔ اس صورتحال میں، ایک راستہ یہ بھی ہے کہ ان فنڈز کو فطرت کے لئے قرض میں تبدیل کردیا جاۓ، جہاں قرض دہندہ فطرت میں سرمایہ کاری کے بدلے قرض خواہ کو قرضے کا کچھ حصّہ یا تو ختم کردیتا ہے یا اس میں کمی کردیتا ہے۔ اسی طرح، نیچر پرفارمنس بانڈز کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ یہ کارکردگی پر مبنی قرض کے انسٹرومنٹ کی ایک قسم ہے، جہاں قرض کو قابل پیمائش اہداف اور فطرت پر مبنی نتائج جیسے ماحولیاتی نظام کی بحالی سے منسلک کیا جاتا ہے۔ یہ ٹولز بڑھتے ہوئے ملکی قرضوں کے بحران سے نمٹنے کے ساتھ موسمیاتی فنانس تک رسائی کو تیز کرتے ہیں، اور پاکستان جیسی ترقی پذیر ریاستوں کو گرین گروتھ کے حصول اور حیاتیاتی تنوع کو بڑھانے کے قابل بنا سکتے ہیں۔
حالیہ تباہ کن سیلاب، اس کے بعد صحت، توانائی اور معاشی بحرانوں نے پاکستان کو ایک مشکل میں ڈال دیا ہے۔ لیکن ان سے گرین ریکوری کا موقع بھی ملا ہے۔ یہ ملک کے آبی ذخائر کو ری چارج کرنے، قدرتی سرمائے کے ذخیرے کو بڑھانے اور گرین معیشت کی طرف پیش قدمی کا ایک موقع ہے۔ موافقت کے اس دور میں، گرین انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری اور فطرت پر مبنی حل جیسے کہ جامع ابتدائی انتباہی نظام اور ایکو سسٹم کی بحالی گرین گروتھ میں معاون ہوسکتی ہے، اور فطرت کےلئے مثبت، میگا ڈائیورس اور موسمیات سے موافق پاکستان تشکیل دے سکتی ہے۔