کاشی گری ایک مخصوص روایتی فن ہے۔ ابتدا میں فنکار صرف نیلے رنگ کا استعمال کرتے تھے اور چونکہ کاشی گری کا زیادہ تر کام برتنوں پر ہوتا تھا اس لیے ’بلیو پوٹری‘ کی اصطلاح مشہور ہو گئی تھی۔ تاہم وقت کی گرد نے ملتان کی گلیوں میں کاشی گری کی صنعت کو دھندلاتے ہوئے چراغِ سحری کی طرح بنا دیا ہے۔ جس سے چھوٹے لیکن باصلاحیت اور ہُنرمند کاریگر مایوس ہو کر اپنے پیشے سے مایوس ہیں، اسی طرح کاشی گری کا آرٹ بھی اپنا معیار کھوتے ہوئے معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ حکومتِ پنجاب اور وفاقی حکومت ایسے اقدامات کرے جس سے ملتانی کاشی گری کی اس قدیم صنعت کو ملتان ہی میں مرنے سے بچایا جا سکے۔
کاشی گری جو ملتان کی پہچان ہے، ملتان میں کاشی گری کا خوب صورت کام بہاالدین زکریا، شاہ رکن عالم اور شاہ یوسف گردیز کے مزارات کے علاوہ مسجد علی محمد خان، ساوی مسجد اور مسجد بہاالدین زکریا کے علاوہ بہت سی مساجد اور مزارات میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ملتان کے علاوہ سندھ کے اکثر مزارات و مساجد میں کاشی گری کے عمدہ نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔
صدیاں گزر جانے کے باوجود کاشی گری کے ان عظیم شاہکاروں کی چمک اب بھی اسی طرح برقرار ہے۔ تقریباً ایک ہزار سال پرانا یہ فن اب آہستہ آہستہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ اب صرف گنتی کے چند لوگ باقی بچے ہیں، جو اپنی محنت اور جانفشانی سے اس فن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ کاشی گری کے فن کو وہ پذیرائی نہیں ملی، جو اسے ملنی چاہیے تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ سرکاری سرپرستی کا نہ ہونا اور اجارہ داری ہے، سرائیکی خطہ کی تاریخ میں خطے کی ثقافت کو گذشتہ 300 سالوں سے زندہ رکھنے والے خاندانوں کے چشم و چراغوں نے جدید دنیا کو اپنی تہذیب و ثقافت سے آگاہی دلانے دست ہنر جاری رکھا ہوا ہے۔ ان کاریگروں کے ہاتھوں ایسے شاہکار تخلیق ہوتے ہیں کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں ’خیرہ‘ ہو جاتی ہیں اور وہ بے ساختہ داد دینے پہ ’مجبور‘ ہو جاتے ہیں۔
ملتان کا شمار دنیا کے چند زندہ اور انتہائی قدیم شہروں میں ہوتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے ساتھ قائم و آباد ہونے والے دنیا کے بیشتر شہر زمانے کی بے ثباتی کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ قدیم شہروں کی تاریخ یا تو کتابوں میں ملتی ہے اور یا پھر عجائب گھروں میں ان سے وابستہ اشیا دیکھ کر لوگ اپنے آباؤ اجداد کے رہن سہن کے متعلق آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ لیکن، ملتان ان شہروں میں شامل ہے جو تاحال پوری آب و تاب سے نہ صرف زندہ ہے بلکہ زندگی کی پوری حرارت سے ’سانس‘ بھی لے رہا ہے۔
سرائیکی خطہ کی تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرنے والے ان ہنرمندوں نے کہا کہ اگر ان روایات کے امین فنکاروں کو حکومتی سرپرستی نہ ملی تو اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ یہ فن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دم توڑ دے گا۔ اگر ایسا ہوا تو اس طرح دنیا کی ایک قدیم ثقافت صفحہ ہستی سے مٹ کر صرف تاریخ کی کتب میں ’زندہ‘ رہ جائے گی اور شاید ہماری آئندہ نسلیں فن پاروں کو کسی عجائب گھر میں دیکھنے پہ مجبور ہوں گی۔
کاشی گری کی تاریخ ملتان شہر کی تاریخ کی طرح قدیم ہے بتائی جاتی ہے۔ نقش و نگار میں پتوں شاخوں اور پھولوں کا استعمال اس فن پر ایرانی اثرات کا غماز کہا جاتا ہے۔ ایرانی ’فنون لطیفہ‘ میں چونکہ منگول اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں اس لیے بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ کاشی گری کا آغاز غالباً کاشغر (چین) میں ہوا تھا۔ جب محمد بن قاسم نے ملتان فتح کیا تو اسلامی لشکر کے ہمراہ کاشی گر یہاں آئے اور ملتان کو انہوں نے اپنا مسکن بنایا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مغلیہ دور حکومت میں بھی اس فن کی حوصلہ افزائی اور قدر کی گئی۔ اسی طرح جب کنگ الیگزینڈر نے 1853 میں ملتان کے قلعہ کہنہ قاسم باغ میں کھدائی کرائی تو ایسی ٹائلیں برآمد ہوئیں جن کے متعلق ماہرین کی رائے ہے کہ وہ نویں صدی عیسوی میں تیار کی گئی تھیں۔
کاشی گری کا خوبصورت ہنر نسل در نسل منتقل ہوا ہے۔ ایک زمانے میں اسے موروثی بھی کہا جاتا تھا۔ روایت ہے کہ کاشی گری میں استعمال ہونے والے نباتاتی رنگوں کی آمیزش کا فارمولا خاندانوں کی میراث ہوتا تھا اور وہ اس میں اس قدر سخت گیر تھے کہ اپنی بہو کو تو فارمولا بتا دیتے تھے مگر بیٹی کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتے تھے کیونکہ اس نے بیاہ کر دوسرے گھر جانا ہوتا تھا۔ اس فارمولے کی حفاظت قیمتی کاروباری ’راز‘ کی طرح کی جاتی تھی لیکن اب منظر بدل گیا ہے کیونکہ اس فن کو سکھانے کے لیے باقاعدہ ادارے بھی وجود میں آ گئے ہیں۔
ملتان آنے والے ملکی و غیر ملکی سیاح قلعہ کہنہ قاسم باغ میں واقع ’نگار خانہ‘ سے کچھ نہ کچھ ضرور خرید کر لے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسی شوروم سے خریدا ہوا ایک گلدان لندن کے عجائب گھر کی زینت ہے۔ کاشی گری سے مزین روغنی ٹائلوں سے سجاوٹ اور دیواروں پر کاشی کے کام کا رواج بھی قدیم ہے۔
ملتان میں شاہ یوسف گردیز، شاہ رکن عالم اور علی اکبر جیسے اولیائے اکرام کے مزارات، مسجد نواباں اور اوچ شریف میں واقع مزارات کی تعمیر میں استعمال کی گئیں روغنی ٹائلیں صدیاں گزر جانے کے بعد بھی دیکھنے والوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ملتان میں حضرت حقانی کا مزار، ساوی مسجد، عید گاہ، سندھ میں حضرت سچل سرمست اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزارات پر بھی انہی ٹائلوں کو لگایا گیا ہے۔ سابقہ ادوار میں یونیسکو، ورلڈ بینک اور حکومت جاپان کاشی گری یا بلیو پوٹری کے فن کے فروغ میں ازحد دلچسپی کا اظہار کیا تاہم انہیں مواقع فراہم نہیں کیے جا سکے۔
کاشی گری کے نایاب فن سے ’مالا مال‘ سیکنڈ ایئر کے طالب علم شاہ زیب نے کہا کہ پڑھتا ہوں لیکن یہ فن ہمارے بزرگوں کی میراث ہے تو میں اپنے والد کے ساتھ یہ کام کرتا ہوں جس پر مجھے فخر ہے۔ عبد الرحمان نے کہا کہ حکومت دستکاروں اور ہنرمندوں کی سرپرستی کرے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو، خاندانی اور نسلی فن پروان چڑھے، دنیا ہماری قدیم روایتی تہذیب و ثقافت سے آشنا ہو، ملک کو کثیر زرمبادلہ حاصل ہو اور غیر ملکی سیاح یہاں کا رخ کریں۔
واضح رہے کہ پہیے کی ایجاد کے بعد فنِ ظروف سازی نے ایک نئی کروٹ لی اور تقریباً 3000 سال قبلِ مسیح میں سفال گروں نے اس پہیے کو ایک نئی شکل میں ڈھال کر مٹی کو اس پر نچانے کی ابتدا کر دی۔ کمہار کے ہاتھوں نے اس پہیے پر جادو دکھانا شروع کیا۔ وقت کے ساتھ اس میں کئی تبدیلیاں کی گئیں جبکہ پہیے کی ایجاد سے پہلے یہ تمام کام انسانی ہاتھ سے کیے جاتے تھے جو کافی وقت لیتے تھے۔
انسانی تاریخ میں صدیوں پہلے سے مٹی کو حسن پرستی جمالیاتی ذوق اور کاری گری کے اظہار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ پھر چاہے وہ مجسمہ سازی کا فن ہو، تعمیری شاہکار ہوں یا فنِ بت سازی، یہ مٹی کب سے مختلف اشکال میں انسانی ذوق کی تسکین کا باعث بنتی آ رہی ہے۔ موہنجودڑو، بابل اور ہڑپہ کی قدیم تہذیبیں بھی مٹی کو برتن بنانے کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ چنانچہ اگر مٹی سے ظروف بنانے کے فن کو قدیم ترین فنون میں سے ایک کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔
آج بھی ظروف سازی کسی نہ کسی صورت میں ہر ملک اور ثقافت کا حصہ ہے لیکن ماضی میں چینی قوم اس ضمن میں سب سے پہلے منظرِ عام پر آئی۔ چینیوں نے پورسلین اور ظروف کے روغن دریافت کیے اور اس سے برتن بنانے شروع کر دیے لیکن ان کے برتن نیلے رنگ کے بغیر بہت پھیکے لگتے تھے۔
پھر ایرانی سلطنت میں ''کوبالٹ آکسائیڈ'' کی دریافت نے تہلکہ مچا دیا۔ اس کو مٹی کے برتنوں پر روغن کے طور پہ ملایا جاتا تھا جو بھٹی میں تپنے کے بعد خوبصورت اور چمکتے ہوئے نیلے رنگ میں بدل جاتا تھا۔
ایرانی حکمران شاہ عباس نے 300 چینی کاریگروں کو ایران بلوایا جہاں آ کر انہیں یہ معلوم ہوا کہ ایران کی مٹی پورسلین بنانے کے لیے بالکل کارآمد نہیں ہے۔ وہ مایوس تو ہوئے لیکن اپنے ایرانی ہم عصروں کے ساتھ مل کر انہوں نے ''نیلے رنگ کے برتن'' دریافت کر لیے۔ اِن برتنوں کو ''بلو پاٹری'' نام انگریزوں کا دیا ہوا تھا جبکہ ایران میں یہ ''سنگینے'' کے نام سے جانے جاتے تھے جس کا مطلب ''پتھر سے بنے ہوئے'' ہے۔
پھر یہ فن افغانستان سے ہوتا ہوا برِصغیر وارد ہوا جہاں ملتان شہر اس کا گڑھ بنا اور ملتان سے یہ حیدرآباد سندھ، لاہور، دہلی اور آگرہ تک جا پہنچا۔ فنِ ظروف سازی پر ایرانی، چینی اور منگول اقوام کا اثر بہت زیادہ ہے اور یہ بھی مانا جاتا ہے کہ کاشی کے فن کی ابتدا مغربی چین کے شہر کاشغر سے ہوئی تھی۔ جو بعد میں ایرانیوں نے اپنایا اور آج بھی آپ کو ایران میں جگہ جگہ مختلف مزارات اور عوامی جگہوں پر نیلا ٹائل ورک نظر آتا ہے۔
ملتان میں عمارتوں اور برتنوں پر نیلے رنگ کی نقاشی کی روایت بھی قدیم عہد سے چلی آ رہی ہے، اس فن کیلئے نیلے رنگ کا ایک خاص روغن تیار کیا جاتا ہے۔ کاشی گری کے فن میں دوسرے رنگوں کا استعمال بہت ہی کم ہوا ہے اور کامیاب بھی نہیں ہو سکا۔ کاشی گری اصل میں مٹی اور دھاتوں کے ایک خاص مرتب سے بنائے گئے برتنوں پر نیلگوں نقش و نگار بنائے جانے کو کہتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ فن ملتان میں اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے اور شہرِ ملتان، فارس اور ترکی کے ساتھ ہمارے پرانے اور اٹوٹ رشتوں کی جیتی جاگتی مِثال ہے۔
ایک زمانہ تھا جب (رنگوں کی خاص ترتیب اور بناوٹ کی وجہ سے) ملتانی ہنرمند کئی عرصے تک اس فن کو ایک راز کے طور پر نسل در نسل منتقل کرتے رہے، لیکن آج یہ ہر جگہ پھیل چُکا ہے۔ ایران کی طرح ملتان کی بھی کئی معروف عمارتیں کاشی گری کا شاہکار ہیں جن میں بزرگانِ دین کی درگاہیں، مساجد، بہاالدین یونیورسٹی کا شعبہ سرائیکی اور اُمرا کے بنگلے شامل ہیں۔
پاکستان میں اس وقت ظروف سازی کے تین بڑے مراکز ہیں۔ ملتان ،گجرات اور لاہور میں شاہدرہ لیکن برِصغیر میں جو شہرت ملتان کی کاشی گری کو نصیب ہوئی ہے وہ کسی اور کا مقدر نہیں بن سکی۔
آج ملتان سمیت سندھ پنجاب کے مختلف علاقوں میں یہ نیلا رنگ ٹائل اور پتھر کی صورت میں ہمیں ملتا ہے جن میں اُچ شریف کے مقبرے، نواب آف بہاولپور کا آبائی قبرستان، درگاہ سچل سرمست، مزار شاہ عبدالطیف بھٹائی، سندھ میں تالپوروں کے مقبرے، لاہور میوزیم، ہولی چرچ بنوں، دربار بابا فرید الدین پاکپتن، اور مختلف امرا کی حویلیاں اور بنگلے شامل ہیں۔
قطر کی مشہور لال اور نیلی مسجدوں میں بھی ملتانی کاشی کاری کی گئی ہے۔ جبکہ ملتان کی اس صنعت کو وزیراعظم ہاؤس، ایوانِ صدر، بیرونِ ملک پاکستان کے سفارت خانوں، پاکستان کی مشہور چہار و پنج ستارہ ہوٹلوں اور برٹش میوزیم لندن میں بھی نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔
اس وقت ملتان میں مختلف چھوٹے بڑے ادارے بلیو پاٹری کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جن میں سرِفہرست ''انسٹیٹیوٹ آف بلو پوٹری ڈیولپمنٹ ملتان'' ہے جو حکومتِ پنجاب چلا رہی ہے استاد عالم کا پوٹری انسٹیٹیوٹ بھی بہت مشہور ہے۔ پرائیڈ آف پرفارمنس اور یونیسکو پرائز کے حامل مرحوم اُستاد عالم، مرحوم استاد اللہ وسایا کے شاگرد تھے جو پوٹری کی دنیا کا ایک بہت بڑا نام تھے (ان کے علاوہ میاں رحیم بخش اور استاد اللہ ڈیوایا بھی اس زمانے کے بہترین کاشیگروں میں سے تھے)۔ انہوں نے اپنی زندگی میں پانچ سو سے زیادہ شاگردوں کو یہ ہنر سکھایا تھا۔ اب ان کا ادارہ ان کے جانشین چلا رہے ہیں۔ اگرچہ یہ ادارے ملتانی کاشی گری کی صنعت کو اور اوپر لے جا رہے ہیں لیکن حکومتی سرپرستی میں قائم ان بڑے، متحرک اور بین الاقوامی سطح پر مشہور اداروں کی موجودگی میں ملتان کے چھوٹے چھوٹے کاشی گر اپنی روزی کے حوالے سے بہت پریشان ہیں۔ وہ تنِ تنہا ان اداروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ جبکہ ہنر مندوں کے مطابق یہ ادارے فن سکھانے سے زیادہ اس صنعت کو کمرشل بنیادوں پر چلا کر ان کی روزی پر لات مار رہے ہیں جس سے ان کے گھروں کے چولہے جلائے نہیں جلتے۔
چیئرمین والڈ سٹی پراجیکٹ ندیم قریشی کے مطابق ثقافتی ورثہ اور ہنر کے تحفظ کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں ملتان ایک تاریخی شہر ہے جہاں ایک وقت میں کاشی گری لازم و ملزوم تصور ہوتی تھی اور ہنرمند کی پذیرائی بھی عام تھی۔ اس ورثہ کے فروغ کیلئے جلد پراجیکٹ لائیں گے تاریخی عمارت پر کندہ کاشی گری کی اصلی شکل میں بحال کرنے کے ساتھ کاریگروں کو جدید طرز پر بھی تربیت دی جائے گی، تاکہ ان کے روزگار کے ذرائع وسعت اختیار کر سکیں۔