کیا نازک شہری ماحول میں کوپ ـ26 موافقت کی فراہمی کا ذریعہ بنا؟

02:52 PM, 7 Jan, 2022

محمد توحید
موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر اور کمزور ممالک کی مالی اعانت ایک اہم اور بنیادی جزو ہے۔

'ماحولیاتی موافقت اور ابھرنے کی قوت' گلاسگو میں کوپ 26کے لیے ایک بڑا موضوع رہا کیونکہ مستقبل میں گرمی کی خطہ حرکت اور رفتار سے قطع نظرموافقت کے کچھ اقدامات ضروری ہونگے جس میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر اور کمزور ممالک کی مالی اعانت، ترقی یافتہ دنیا کے عزم کا ایک اہم اور بنیادی جزو ہے۔ امریکہ نے حال ہی میں اپنی مالی امداد کو دوگنا کرنے کے ایک اہم وعدے پر عمل درآمد کیا ہے بلاشبہ اس بات کا تجزیہ کیا جائے گا کہ فریقین کے اس طرح کے اجلاس میں کئے گئے وعدے کس حد تک تبادلے کے نئے ذرائع کی نمائندگی کرتے ہیں اور اس طرح مخصوص مقصد کے لئے پیسے دیئے جانے کے وعدے کتنے مناسب ہیں؟ ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ اس مال کو کس طرح خرچ کیا جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ سب سے زیادہ فائدہ کمزور کو ہو گا۔

اوپر کی تصویر ، کراچی میں بارش کا پانی لے جانے والے گجر نالے کے قریب مکانات کو دکھاتی ہے۔( محمد توحید)


موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا کے سب سے زیادہ خطرناک سیاق و سباق میں کم آمدنی والے شہری علاقے ہیں، جو اکثر غیر رسمی طور پر آباد ہوتے ہیں۔ خاص طور پر، 'نازک' شہری علاقے ایسے سیاق و سباق کو بیان کرتے ہیں جہاں ریاستیں بنیادی سہولیات اور خدمات فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں یا اس سے قاصر ہیں۔ اس میں وہ شامل ہیں جو خطرات کو کم کرنے اور موافقت پیدا کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے ضروری ہیں۔ اگرچہ نزاکت ہمیشہ تشدد کی طرف اشارہ نہیں کرتی ہے، ایسے علاقوں میں لوگ غیر متضاد تشدد کی کئی شکلوں کے براہ راست اثرات کے ساتھ بھی رہتے ہیں۔ جیسے جرم، بے دخلی اور صنفی بنیاد پر تشدد۔

تمام شہروں میں نزاکت بڑھ رہی ہے جب کہ غیر متضاد تشدد تیزی سے شہری ماحول کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ اس کے باوجود زمینی، تجرباتی انکوائری کے ذریعے بہت کم تحقیق کی گئی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور شہری تشدد کے اثرات لوگوں کے لیے خطرات کے طور پر کیسے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں؟ اور ان سیاق و سباق میں موافقت کیسے فراہم کی جائے؟

ہم نے عالمی چیلنجز ریسرچ فنڈ (جی سی آر ایف) کی مالی اعانت سے چلنے والے تحقیقی پروجیکٹ– ’24 گھنٹے شہری خدشات کے دور سے متعلق بات چیت:غیر متنازعہ تشدداور موسمی تبدیلیوں کے شہروں پر اثرات ایک صنفی نقطہ نظر ‘ – میں اس بات کی تحقیقات کیں کہ کم آمدنی والے معاشروں میں عدم تنازعہ تشدد اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اوپر تلے خدشات اور مرکب خطرات کیا ہیں اور کس طرح ان خدشات کے تجربے اور تاثرات سیاق و سباق میں صنف کے ساتھ مختلف ہوتےہیں ۔ہم نے نیروبی (کینیا)، کراچی (پاکستان) اور کولمبو (سری لنکا) میں ان کم آمدنی والی آبادیوں میں کام کیا جو سیلاب کے خطرات سے متاثر ہونے والے خطرناک ماحولیاتی حدود (جیسے دریا کے کنارے اور نکاسی آب کی نہروں کے ساتھ) میں واقع ہیں اور جہاں رہائشیوں کو حکومت یا بیرونی ایجنسیوں کی طرف سے بہت کم مدد کے تناظر میں متعدد قسم کے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اگرچہ ہمارےتمام مطالعاتی مقامات پر عدم تحفظ اور کمزوریوں کا پیمانہ مختلف ہے، لیکن حکمرانی ، تشدد اور آب و ہوا سے متعلق خطرات کے درمیان باہمی عمل کے اثرات ہمارے معیاری و مقداری دونوں طرح کے سروے سے سامنے آئے ہیں۔ یہ باہمی عمل خاص طور پر خواتین کے لیے بہت واضح ہیں۔

کولمبو میں محققین کے اعدادو شمار کے مطابق ' خواتین نے صنفی بنیاد پر تشدد میں اضافے کی اطلاع دی ہے جو سیلاب کے واقعات کی وجہ سے شروع ہوئی یا بڑھ گئی ہے۔ خاندانوں اور برادری کے افرادکے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب سیلاب کی ناکافی امداد تقسیم کی گئی یا خاندان کے افراد کو انتہائی گنجان رہائشی حالات میں رشتہ داروں کے ساتھ رہنے کے لیے نقل مکانی کرنے کی ضرورت پڑی۔ خطرے کے انتظام اور شہری تخلیق نو کے نام پر ریاستی بے دخلی کی مسلسل غیر یقینی صورتحال اور (اکثر) تشدد سیلاب کے واقعات کے براہ راست اثرات سے جڑا ہوا ہے۔

کراچی میں، اس کی وجہ سے پرتشدد ’جھڑپیں‘ ہوئیں۔ خواتین نے ریاستی مسماری کی مہم میں باتھ روم پر مشتمل مکان کے نقصان سے غیر متناسب اثرات کی اطلاع دی۔ جزوی رہائشی مکان میں رہنے سے عدم تحفظ نے خاندانوں کو بیٹیوں کو محفوظ مقامات پر بھیجنے اور خواتین کو رات کے وقت محافظ کے طور پر کردار ادا کرنے پر مجبور کیا۔ پھر سیلاب نے گھریلو نقصانات اور تناؤ کو بڑھا دیا اور صنفی بنیاد پر تشدد میں اضافہ ہوا۔ ایک خاتون نے سیلاب کے واقعے میں اپنے شوہر کے ایک عضو سے محروم ہونے کے بعد بدسلوکی کا سامنا کرنے کی بات کی۔

ہم اب بھی اس بات کو دیکھ رہے ہیں کہ لوگوں کے لیے مختلف اوقات میں خطرات کا سامنا کرنے کا کیا مطلب ہے (جیسا کہ ہمارے پروجیکٹ کے عنوان '24 گھنٹے کے خدشات و خطرے' کے مطابق، عوامی اور نجی دونوں جگہوں پر تشدد کی مسلسل شکلوں میں خواتین کے عدم تحفظ اور خطرے کی نشاندہی ہوتی ہے ) اور یہ کہ کیسے وہ عمل گھرانوں، برادریوں، شہروں اور اس سے باہر لوگوں کے لیے خطرات کے پیچیدہ مجموعوں میں اضافہ کرتا ہے ۔تحقیق پہلے سے ہی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ تشدد اور آب و ہوا و موسمی تبدیلی کے خطرے کے باہمی تعامل کے طریقوں کے لیے بین طبقاتی سماجی شناختیں اہم ہیں۔ مثال کے طور پر، کراچی کی ایک کمیونٹی میں عیسائی اور مسلمان خواتین موسمیاتی خطرے کے حوالے سے تشدد کی اقسام میں نمایاں فرق کی اطلاع دیتی ہیں۔

ہمارے اعدادوشمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ آب و ہوا کے اثرات کی قسم تشدد کی ان شکلوں کو متاثر کرتی ہے جو آشکار ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر سیلاب خواتین کو اپنے آپ کو اور اپنے خاندانوں کو گھر سے باہر لے جانے پر مجبور کر سکتا ہے اسی طرح گرمی کا دباؤ مردوں کو گھر میں رہنے پر مجبور کر سکتا ہے ( جو کہ صنفی بنیاد پر تشدد کے امکانات کو بڑھاتا ہے) اور خواتین کو پانی کے وسائل کی تلاش میں زیادہ وقت گزارنا پڑسکتا ہے۔ مقامی سیاق و سباق میں محفوظ اور مؤثر طریقے سے موافقت کو سرایت کرنے کے لیے اس قسم کے اہم اعدادوشمار کی ضرورت ہوگی۔ اس پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف اس بات کا اندازہ لگایا جائے کہ موسمیاتی تبدیلی تنازعات میں اضافہ کا باعث بنتی ہے بلکہ یہ بھی پوچھتی ہے کہ تشدد لوگوں کی موافقت کرنے کی صلاحیت کو کس طرح متاثر کرتا ہے اور ان متعدد اور ہنگامی طریقوں کے بارے میں پوچھتا ہے جن کے ذریعے تشدد واقع ہو سکتا ہے، بشمول خود 'ڈھل جانے والی' مداخلتوں کے ذریعے۔

ہم موافقت کی سرمایہ کاری کے لیے 'کوئی نقصان نہیں پہنچانے' کے اصولوں کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ تشدد کو ہوا نہ دی جائے، اس کو بڑھایا جائے یا جھڑپ نہ ہو۔ دوسرا، ہماری تحقیق کمزور اور غیر محفوظ علاقوں میں کمیونٹی نیٹ ورکس اور تنظیموں کے فعال کردار، اور ان کی سرگرمیوں کی حمایت کرنے کی ضرورت پر توجہ مبذول کراتی ہے۔ تیسرا، ہم پائیدار اور محفوظ شہروں کی ضرورت سے نمٹنے کے لیے کثیر المقاصد بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے امکانات کی نشاندہی کرتے ہیں۔

کینیا میں ہمارے تحقیقی ساتھی، (کے ڈی آئی) خواتین اور لڑکیوں کے لیے عوامی جگہ کی شراکتی عمارت میں اپنی سرمایہ کاری کے ذریعے اس کی مثال دیتے ہیں، بلکہ انتباہ کے لیے سرخ جھنڈوں کا استعمال جیسے آسان اقدامات بھی بیان کرتے ہیں جو کہ سیلاب کے انتباہ میں مدد کے لیے ایک ابتدائی عمل تھا لیکن اب برادریوں نے بھی عدم تحفظ کے واقعات کی نشاندہی کرنے کے لیے 'سرخ جھنڈوں کا استعمال ' اپنا لیا ہے۔

آخر میں متعلقہ طور پر، ہم مقامی سطح پر موافقت کی سرمایہ کاری کو ترقی پر مبنی سرمایہ کاری کے ساتھ مربوط کرنے کے لیے دیرینہ مطالبات کو دہراتے ہیں جو عدم مساوات اور عدم تحفظ کے وسیع مجموعوں سے نمٹتے ہیں کیونکہ یہی عدم مساوات اور عدم تحفطات نازک شہری سیاق و سباق ( جیسے کہ پانی اور صفائی ستھرائی اور ہاؤسنگ کے بنیادی ڈھانچے ) میں خطرات پیدا کرتے ہیں۔

( نوٹ : یہ مضمون نوٹنگھم یونیورسٹی کی ڈاکٹر ارابیلا فریزر نے لکھا اور مترجم -محمد توحید اس تحقیق میں ان کے تحقیقی ساتھی بھی ہیں)
مزیدخبریں