بیٹی ایک رحمت ہے، مگر ظالم سماج نے اس کو زحمت بنا دیا ہے

بیٹی ایک رحمت ہے، مگر ظالم سماج نے اس کو زحمت بنا دیا ہے
الحمداللہ میرے رب نے مجھے اس دنیا میں رحمت بنا کر بھیجا۔ جب آنکھ کھلی تو کسی کی بیٹی تو کسی کی بہن بن گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ رشتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ فرضی، منہ بولے کئی رشتوں سے وابستگی ہوتی چلی گئی۔

جوں جوں وقت گزرتا گیا بچی سے عورت تک کے سفر میں معاشرے کی کئی تلخیوں کے ساتھ پروان چڑھتی رہی۔

پہلے تو صرف اپنی دہلیز تک نام نہاد خاندانی روایات اور اصول تھے جن کے ساتھ ہم پلتے بڑھتے گئے۔ پھر جب دہلیز سے باہر قدم رکھا تو پتہ چلا کہ جناب یہاں تو ایک اور نئی دنیا ہے جہاں جنت اور دوزخ دونوں ملنے والی ہیں۔

سکول، کالج اور یونیورسٹی تک کا سفر مکمل کیا تو اس معاشرے میں بحثیت عورت رہنے، سہنے اور زندگی گزارنے کے چند اصول دیکھنے سننے کو ملے، دیکھنے سننے کا لفظ اس لئے استعمال کیا کیونکہ معاشرے کے اپنے ہی الگ الگ اصول اور روایات ہیں جو آپ کے لئے آپ کے معیار اور کچھ حد تک باشعور اور لاشعور ہونے کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

پڑھ لکھ کر عورت نوکری کی تلاش میں اس ظالم سماج کا سامنا کرنے نکلتی ہے۔ کوئی اپنے حالات کی مجبوری میں گھر چلانے کی غرض سے روزگار کی تلاش میں ہوتی ہے، تو کوئی پڑھ لکھ کر اپنا کریئر بنانے کے لئے برسر روزگار ہوتی ہے۔

لیکن مشکلات کا سامنا دونوں کو ہی کرنا پڑتا ہے کیونکہ جب عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو سو بلائیں اس کے ساتھ ساتھ سائے کی طرح گھومتی ہیں۔ ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے والے اور سبز باغ دکھانے والے شیطان ان کی راہ تک رہے ہوتے ہیں۔

پھر بھی جیسے تیسے وہ ان کا سامنا کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھتی ہے، وقت گزارتے گزارتے وقت کاٹنے تک کے سفر میں داخل ہو جاتی ہے۔ پھر یہی معاشرہ جو پیدائش کے وقت کہتا تھا کہ اللہ کی رحمت ہوئی ہے اسے زندگی جینے کے لئے زحمت بنا دیتا ہے۔

اس کا اوڑھنا، پہننا، بولنا، چلنا، کھانا، پیںا، اٹھنا، سونا، یہاں تک کے سانس لینا بھی ہر کسی کا ذاتی معاملہ بن جاتا ہے۔ وہ پیدا تو آزاد ہوتی ہے، پلتی بڑھتی بھی آزاد ہی ہے، لیکن کیونکہ وہ باہر نکلی ہے تو سب کی ذاتی پراپرٹی بن جاتی ہے۔

ارے بھئی وہ جس دہلیز کو پار کر کے آتی ہے وہ اس کے والی وارث ہیں۔ یہ معاشرہ اور اس معاشرے میں رہنے والے اس کے مائی باپ نہیں جو اس کی ذات کی تشہیر اور اس کے مطابق اپنے بے معنی اصول، روایات اور فیصلے اس پر مسلط کریں۔ ہر رشتے کا اپنا ایک دائرہ کار ہوتا ہے اور اسے اسی میں رہنا چاہیے، ان حدود کو پار کر کے دوسروں کی زندگیوں میں بلاوجہ دخل اندازی کر کے زندگی جہنم بنانے سے گریز کریں۔

وہ اپنا اچھا برا سب سمجھتی ہے۔ اسے بھی کھل کر سانس لینے کا، جینے کا حق دیں۔ اس کی کامیابی پر خوش ہونا سیکھیں، نہیں ہو سکتے تو حسد کرنے سے بہتر ہے محنت کر کے اس مقام کو پانے کی کوشش کریں۔

یہاں جنگ، مرد اور عورت کی نہیں ہو رہی، بس عورت کو عورت سمجھنے اور اسے اس کے تمام حقوق اور معاشرے میں وہ عزت اور مقام دینے کی ہے۔ زبردستی ان کے سر چڑھ کر ان کی زندگیوں میں گھٹن پیدا مت کریں۔

ہمارے ہاں عورتوں کے ساتھ زیادتی، جسمانی و ذہنی تشدد اور شادی کے باعث ہونے والے خودکشی کے واقعات میں ہمارے اس ظالم معاشرے کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ہمارے معاشرے کا ہر وہ فرد ان کا قاتل ہے جو انہیں اس نہج تک لاتا ہے۔ ان کے لئے زمین تنگ کر دیتا ہے۔ ان سے ان کی خوشیاں چھین لیتا ہے۔

اور اگر کوئی اس معاشرے کے خلاف جا کر اپنی زندگی کا فیصلہ کر بھی لے تو اسے بھی یہ نہیں چھوڑتے۔ اس کی زندگی بھی جہنم بنانے میں اپنا کردار بخوبی ادا کرتے ہیں۔

اب آیا دھیان اے آرام جاں اس نامرادی میں
کفن دینا تمہیں بھولے تھے ہم اسباب شادی میں

روز مرہ زندگی کے بہت سے ایسے واقعات ہیں اگر ایک ایک کو لکھنا شروع کروں تو شاید یہ زندگی کم پڑ جائے، جہاں ہم سے ہمارے جینے کا حق چھیننے والوں کی کبھی ختم نہ ہونے والی فہرست شامل ہے۔

مجھے اپنے عورت ہونے پر فخر ہے، میں نے کوئی تیر نہیں مارے لیکن ہاں جنہوں نے مارے ہیں ان سے ان کی کمان بھی نہیں چھینی۔ اور الحمداللہ جے  کیلئے رحمت بنا کر بھیجا تھا ان کے لئے بھی باعث رحمت ہوں، اگر اس معاشرے کے چھوٹی سوچ والے چھوٹے لوگ ہمیں زحمت قرار نہ دیں تو۔