موجودہ حالات ذاتی اقتدار، مراعات اور مفادات سے ہٹ کر ملک اور قوم کو اس دلدل سے نکالنے کے لئے قومی اتفاق رائے کے متقاضی ہیں، لیکن بدقسمتی سے مقتدر قوتوں سے لے کر سیاستدانوں اور میڈیا تک سب اپنے اپنے گناہ اور جرائم چھپانے، اور مخالف پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ اور بعض سیاستدانوں کے کردار تو ویسے قابل ستائش نہیں ہیں، لیکن بدقسمتی سے میڈیا کا کردار قومی ہم آہنگی پیدا کرنے کے بجائے باعثِ تقسیم بن رہا ہے۔ مگر میڈیا ریٹنگ اور بزنس بڑھانے کے چکرمیں ہے، بقول سینیئر صحافی نصرت جاوید کے، سیاپا فروشی میں مصروف ہے۔ اس مقصد کے لئے ہر اس آواز پر کان اور نظر رکھتا ہے جو ہیجان خیز اور سنسنی خیز ہو۔
شام سے رات گئے تک ٹی وی ٹاک شوز اور اخباروں کی شہ سرخیوں کا سرسری جائزہ اس ملک کے میڈیا کی سنجیدگی طشت از بام کرتا ہے۔ اس ملک کے ہر میڈیا ہاؤس نے اپنا یہ فریضہ بنایا ہے کہ آج عمران خان نے کیا کہنا ہے، تاکہ اس کو عوام کے کانوں اور دماغوں میں فوراً بلا روک ٹوک انڈیلا جائے، اس سے قطع نظر کہ اس نے کیا کہا، کس پر الزام لگایا اور کس کی پگڑی اچھالی۔ اب تو وہ اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر یکطرفہ بغیر سوال اور جواب کے پریس کانفرنس بھی کرتا ہے، قوم سے خطاب بھی، اور میڈیا اس کو من و عن نشر کرتا ہے۔ اصل میں یہ سوال جواب طلب ہے کہ آج کل قومی سیاست میں جو زہر اور تیزاب پھیلایا گیا ہے اس میں عمران خان اور ان کی جماعت کے علاوہ میڈیا کا کیا اور کتنا کردار ہے۔ موجودہ سیاسی و معاشی حالات میں جو کھری، سنجیدہ اور معتبر آواز اور کردار ہے، وہ میڈیا کے نزدیک توجہ طلب ہی نہیں ہے۔ ہمارے میڈیا کی یہ ذہنیت بن گئی ہے کہ اس کی توجہ مبذول کرانے کے لئے صرف نام نہاد پاپولسٹ ہونا اور بے لگام بولنا ضروری ہے۔
اگر اس میڈیا کو اپنے مالی مفادات کے علاوہ ملک کو موجودہ سیاسی، معاشی اور سلامتی کے بحرانوں سے نکالنے اور اس کے لئے قومی اتفاق رائے اور یکجہتی پیدا کرنے میں اپنے کردار کا ادراک ہوتا، تو اس مقصد میں معاون ہر آواز اور کردار پر نظر ہوتی، لیکن افسوس ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا۔
گذشتہ جمعرات، 5 جنوری کو اسلام آباد بار اسوسی ایشن نے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کو ایک اہم قومی موضوع 'پاکستان کی بقا جمہوریت، قانون اور آئین کی حکمرانی میں مضمر ہے" پر خطاب کے لئے مدعو کیا تھا۔ معروضی حالات میں اس فورم پر محمود خان اچکزئی جیسی شخصیت کا خطاب اور اس کے نکات و محرکات میڈیا کی توجہ اور بحث کا موضوع ہونا چاہیے تھا، مگر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
اس خطاب میں جناب اچکزئی صاحب نے خطے اور ملک کو درپیش بحرانوں، اس کے محرکات اور اس سے نکلنے کے لئے قابل عمل لائحہ عمل بھی تجویز کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس دفعہ ملک کو واقعی سنگین بحرانوں کا سامنا ہے جو صرف روایتی انتخابات اور سیاسی انجینیئرنگ سے ٹلنے والے نہیں ہیں، بلکہ قومی سطح پر مل بیٹھنے کے متقاضی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز کی ایک گول میز کانفرنس بلائی جائے، جس میں پہلے یہ طے کیا جائے کہ یہ ملک کس نے اور کیسے چلانا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف اور صرف عوام اس ملک کو سنبھال سکتے ہیں، اس ملک میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے، اگر ہے تو جمہوریت، عوامی اور آئینی بالادستی کی کمی ہے۔ یہ اب بھی ایک بہترین ملک بن سکتا ہے بشرطیکہ جج اور جرنیل آئین کی حکمرانی کا کڑوا گھونٹ پی لیں۔
انہوں نے تمام سیاسی قوتوں بشمول عمران خان کو دعوت دی کہ جماعتی سیاست بعد میں بھی ہو سکتی ہے، پہلے آئیں بیٹھ کر موجودہ بحرانوں اور چیلنجز سے نمٹنے کے لئے لائحہ عمل طے کرتے ہیں، اس مقصد کے لئے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اچکزئی نے کہا کہ معاشی ابتری، غربت اور مہنگائی اس حد تک پہنچی چکے ہیں کہ اگر ہم نے بروقت اقدامات نہ اٹھائے تو ملک افراتفری اور خانہ جنگی کی کھائی میں گر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ خطے کی صورتحال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگر یہاں پر ایک بھی ریاست خواہ ایران، افغانستان یا پاکستان ہوں، عدم استحکام کا شکار ہوئی تو خطے کی کوئی ریاست اس کے منفی اثرات سے نہیں بچ سکے گی۔ پرامن اور آزاد افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کے بہترین دوست بن سکتے ہیں، اور خطے میں موجود معاشی امکانات سے استفادہ بھی کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے ضروری ہے ایک دوسرے کی سلامتی کا خیال رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہیں۔ اس حوالے سے بھی اچکزئی صاحب نے اپنا کردار ادا کرنے کا عندیہ دیا، بشرطیکہ دونوں ممالک سنجیدہ ہوں۔
اچکزئی صاحب کی سیاسی تاریخ پر بصارت اور موقف، اور ملک کے معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ تقریر پاکستانی میڈیا کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہونا چاہیے تھی لیکن کیا کریں ہمارے میڈیا کے لئے تو عمران خان اور شیخ رشید اہم ہیں۔