آج کل بھارت اور چین لداخ سمیت دیگر سرحدی علاقوں میں باہم متحارب ہیں۔ دو بڑی طاقتیں ایک دوسرے کے ساتھ تناؤ سی صورتحال میں ہیں۔ چین بھارت کے 30 کے قریب فوجی ہلاک کر چکا ہے۔ بھارت کی جانب سے بھی بھرپور گولہ باری گئی۔ اور وادی گوالان پر تنازع تا حال موجود ہے۔
اس صورتحال کا اچر بھارت کی اندرونی سیاست اور داخلی معاملات پر بھی پڑ رہا ہے۔ جبکہ کرونا کے بھارتی معیشت پر پڑنے والے اثرات کو چین سے سرحدی جھڑپوں میں بھاری نقصان کے ساتھ ملا کر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس وقت ہر طرف سے مشکل میں ہیں۔
تاہم اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں مخصوص صحافتی حلقے جو عام طور پر مقتدر حلقوں کے بیانیہ کے تقسیم کار کے طور پر جانے جاتے ہیں چین اور بھارت کے درمیان تنازعے میں پاکستان کا کردار غیر منطقی طور پر فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں وہ کسی قدر بھی ملکی وقار میں اضافے کا سبب نہیں بنتے بلکہ خفت مول لیتے ہیں۔
ایسی ہی ایک کوشش جنگ گروپ سے وابستہ صحافی مظہر برلاس نے کی ہے۔ یہ وہی صحافی ہیں جنہوں نے کرونا کے پیچھے اسرائیلی امریکی اور یہودی لابی کی سازش کی بو کو سونگھا تھا جبکہ اس کی ویکسین کے ذریعے انسانوں کے جسموں میں ایک مائکرو چپ ڈالنے پر بھی مظہر برلاس پختہ یقین رکھتے ہیں۔
اپنے تازہ ترین کالم بعنوان عاصم باجوہ کی تیزی رفتاری میں بھی ایک اور میگا تھیوری کے ساتھ وہ سامنے آئے ہیں۔
موصوف لکھتے ہیں کہ سی پیک کے تحت شروع کئے گئے کئی منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ کچھ پہ کام جاری ہے۔ چین پاکستان میں سڑکوں کا جال بچھا رہا ہے، پشاور سے کراچی تک ریلوے ٹریک درست کر رہا ہے، پاور پروجیکٹس لگا رہا ہے، انڈسٹریل زون بنا رہا ہے، مختلف ڈیمز بن رہے ہیں، بلوچستان کی بےآباد اور بنجر زمینوں کو ہرا بھرا کرنے کیلئے پانی کے ذخیروں پر کام ہو رہا ہے، گوادر میں آئل ریفائنری پر کام جاری ہے۔
اعلیٰ سڑکوں نے سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان، کشمیر اور گلگت بلتستان کو ایک کر دیا ہے۔ پاکستان کے پسماندہ ترین علاقے بھی ترقی کا راستہ دیکھ رہے ہیں۔ گوادر میں ایک شاندار انٹرنیشنل ایئر پورٹ بن رہا ہے۔
مگر دوستو! یہی بناوٹ، سجاوٹ اور ترقی ہمارے دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہی، ہمارا دشمن خاص طور پر بلوچستان سے ایسے بے وفائوں کو تلاش کرتا ہے جو بلوچستان کی ترقی نہیں دیکھنا چاہتے، چند لالچی افراد خوبصورت بلوچوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، محض چند ڈالروں کے لئے نفرت کی فصل اگانا چاہتے ہیں، یہ بزدل چوہے بیرون ملک بیٹھ کر ملک کا امن تباہ کرنا چاہتے ہیں، ان کی کمر تو ٹوٹ چکی ہے مگر یہ چھپ چھپا کر کوئی نہ کوئی واردات کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں غریب بلوچ مارا جاتا ہے مگر ان سرداروں کو کچھ نہیں ہوتا۔
مظہر برلاس کہتے ہیں کہ را کے ٹکڑوں پر پلنے والوں نے نام نہاد تنظیمیں بنا رکھی ہیں، حال ہی میں انڈین نیوز ایجنسی ’’ویان‘‘ میں ایک مضمون شائع ہوا ہے، یہ مضمون بلوچستان نیشنل موومنٹ کے سربراہ خلیل بلوچ نے لکھا ہے، انڈیا کو خوش کرنے کے چکر میں اس نے پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کی ہے کہ جیسے چین گوادر پر قابض ہو گیا ہو۔
خلیل بلوچ کو یہ پتا ہی نہیں کہ پاکستان اور چین کے مابین اقتصادی معاہدوں کے علاوہ ایک زبردست دفاعی معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کا ایک روپ حال ہی میں چین نے لداخ میں دکھایا ہے۔ سی آئی اے، موساد اور را کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر پاکستان اور چین کے مابین معاہدہ ہے کیا؟ سمجھداروں کیلئے اشارہ کافی ہے، چین کی سرحدیں چودہ ملکوں سے ملتی ہیں، صرف ایک پاکستان ہے جس سے اس کا کبھی جھگڑا نہیں ہوا۔
انہوں نے کالم کے اختتام پر لکھا کہ یہ سب عاصم باجوہ کی تیز رفتاری کے بدولت ہے اور جلد آپ اس سے متعلق خوشخبری سنیں گے۔
اس خفیہ دفاعی معاہدے کے بودے دعوے کو ویسے تو کوئی گھاس ڈالے گا نہیں شاید اگر زیادہ لے دے ہوئی تو متعلقہ ترجمانوں کی جانب سے وضاحت آ ہی جائے گی۔ تاہم مظہر برلاس کی اس پرواز تخیل کے لئے شاید غالب کا یہ شعر ہی کافی ہو۔
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی