آر ایس ایف نے صحافت کے شکاری حکمرانوں کی تصاویر پر مشتمل ایک گیلری شائع کی ہے جس میں دنیا کے 37 سربراہان حکومت شامل ہیں. جنہوں نے آزادی صحافت کو کچلنے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے۔ اس فہرست میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان بھی شامل ہیں۔
آزادی صحافت اور فریڈم آف اسپیچ پر کام کرنے والے ادارے آر۔ایس۔ایف۔رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی تازہ ترین رپورٹ میں پہلی بار دو خواتین حکمران اور ایک یورپی ملک کے سربراہ کو آزادی صحافت کے شکاری حکمرانوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
آر۔ایس۔ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ملک میں آزادی صحافت کی صورتحال مزید بگڑ گئی ہے، اخباروں کی ترسیل اور تقسیم میں خلل، ذرائع ابلاغ کو اشتہارات واپس لینے کی دھمکیاں، نیوز چینلز کی بندش، اور صحافیوں پر ہونے والے پر تشدد حملوں میں اضافے جیسے واقعات میں تیزی آئی ہے اور اس سب کی وجہ عمران خان کے آمرانہ رجحانات اور ملک میں مسلسل فوج اور انٹیلی جنس اداروں کی بالا دستی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے ہی بہت سے صحافی اغوا اور موت کی دھمکیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ "پریشان کن کہانیاں چھپانا بند کریں ورنہ آپ کے گھر والےآپ کو دوبارہ زندہ نہیں دیکھ سکیں گے" یہ حقیقت میں بہت سےصحافیوں اور بلاگرز کو دیا گیا پیغام ہے۔
یہاں تک کہ جن لوگوں نے سکیورٹی وجوہ کی بناء پر بیرون ملک رہائش اختیار کی ہوئی ہے وہ وہاں پر بھی محفوظ نہیں ہیں اور انہیں بیرون ملک بھی دھمکیوں اور جسمانی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سائبراسپیس جو کہ آزادی اظہارِ رائے اور آزادانہ خبروں کا متبادل ہیں ان کو بھی عمران خان کی حکومت میں بننے والے سخت قوانین کا سامنا ہے۔
رپورٹ میں خصوصی طور پر عمران خان کے جولائی 2019 کے دورہ امریکہ کے دوران وائٹ ہاؤس میں ہونے والی پریس کانفرنس میں عمران خان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے
"پاکستانی میڈیا دنیا کا سب سے زیادہ آزاد میڈیا ہے، یہ کہنا کہ پاکستان میں میڈیا پر پابندیاں ہیں، یہ صرف ایک مذاق ہے۔ اور اس بیان کے چند ہی گھنٹوں بعد ملک کے سب سے مقبول جیو نیوز کی نشریات کو ملک کے بیشتر حصوں میں بند کر دیا گیا تھا۔
آر-ایس-ایف رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز ایک بین الاقوامی غیر منافع بخش اور غیر سرکاری تنظیم ہے جو کہ دنیا بھر میں آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کے حقوق پر کام کرتا ہے۔ آزادی صحافت کے شکاریوں پر مشتمل پہلی رپورٹ تقریباً 20 سال قبل شائع ہوئی تھی، جبکہ حالیہ رپورٹ پچھلی رپورٹ کے تقریباً پانچ سال بعد شائع ہوئی ہے۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے آر۔ایس۔ایف کے سیکرٹری جنرل کرسٹوفر ڈیلور نے کہا کہ اس رپورٹ میں دنیا بھر سے 37 سربراہان مملکت کو شامل کیا گیا ہے اور پھر بھی اس رپورٹ کو مکمل نہیں کہا جا سکتا۔ ان میں سے ہر ایک شکاری کا انداز منفرد ہے۔ کچھ بے منطقی قوانین کا سہارا لیتے ہیں تو کچھ باضابطہ طور پر بنائے گئے کالے قوانین اظہارِ رائے کو کچلنے کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مگر ان شکاریوں کے لئے بڑا چیلنج یہ ہے کہ انہیں اپنے اس آمرانہ طرز عمل کی بڑی قیمت چکانا ہو گی۔ ہمیں ان کے طریقہ کار کو نیا معمول بننے نہیں دینا چاہیے۔
آر۔ایس۔ایف کی اس رپورٹ میں 21 شکاری حکمران ایسے ہیں جو کہ پچھلی رپورٹ (2016) میں بھی موجود تھے جبکہ شام کے صدر بشار الاسد، ایران کے اسلامی انقلاب کے رہنما آیت اللہ الخمینی، روس کے صدر ولادی میر پیوٹن، اور بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینو بیس سال سے متواتر اس فہرست کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ آزادی صحافت و اظہار رائے کے شکاریوں کی اس فہرست میں نئے اندراج میں سب سے زیادہ مقبول سعودی عرب کے 35 سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہیں جو کہ تمام طاقت کا سر چشمہ ہیں اور آزادی رائے کو کچلنے کے لئے جاسوسی، صحافیوں کو ڈرانا دھمکانہ، اور بعض اوقات اغوا اور تشدد جیسے جابرانہ ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہیں ۔صحافی جمال خشوگی کا ہولناک اور سفاکانہ قتل اس کی ایک مثال ہے۔
آر۔ایس۔ایف کی اس رپورٹ میں پہلی بار فہرست کا حصہ بننے والی خواتین سربراہان ملک میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اور ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لانگ شامل ہیں۔ شیخ حسینہ واجد نے 2017 میں بنگلہ دیش کا ڈیجیٹل سیکیورٹی لاء جسے کالا قانون کا نام دیا گیا ہے، بنایا جس کے تحت ستر سے زائد صحافیوں اور بلاگرز کو قانونی چارہ جوئی کا نشانہ بنایا گیا۔ دوسری خاتون کیری لام جنہیں ہانگ کانگ میں چین کے وزیر اعظم شی جن پنگ کی کٹھ پتلی بھی کہا جاتا ہے نے آزادی صحافت سے متعلق چین کے سخت قوانین کی کھل کر حمایت کی اور اس کے نتیجہ میں ملک کے سب سے معروف اخبار ایپل ڈیلی پر پابندی اور اس کے بانی جمی لائی کی گرفتاری عمل میں آئی۔ جمی لائی 2020 کے آر۔ایس۔ایف پریس فریڈم کے انعام یافتہ صحافی ہیں۔
مندرجہ بالا رپورٹ میں پہلی بار یورپ کے کسی سربراہ کو شامل کیا گیا ہے جو کہ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربن ہیں۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ وکٹر اوربن خود کو جمہوریت کا چیمپئن قرار دیتے ہیں مگر در اصل سنہ 2010 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک انہوں نے میڈیا اور آزادی اظہارِ رائے کو مستقل اور موثر انداز میں نقصان پہنچایا ہے۔
رپورٹ میں شامل کئے گئے شکاریوں میں سے ہر ایک کے لئے آر۔ایس۔ایف نے ایک علیحدہ فائل مرتب کی ہے جس میں ان کے "طریقہ واردات" (جس سے وہ صحافیوں کو سنسر اور ان پر ظلم کرتے ہیں)، اور ان کے "پسندیدہ اہداف" (جس طرح کے صحافی، میڈیا اور ذرائع ابلاغ اس کا شکار ہوتے ہیں) کو واضح کیا گیا ہے۔ فائل میں ان کے تقاریر یا انٹرویوز کے وہ حوالے بھی شامل ہیں جس میں وہ عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں اپنے ملک کی درجہ بندی اور پریس فریڈم سے متعلق اپنے رویوں کو جواز بنا کر پیش کرتے ہیں۔