تفصیل کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین نیب جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال اور نیب کے دیگر افسران کی جانب سے مبینہ ہراسانی کا شکار خاتون طیبہ گل کی بریفنگ پر ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جب تک ان الزامات پر نیب افسران کے خلاف تحقیقات مکمل نہیں ہوتیں، تب تک نیب افسران کو معطل کیا جائے۔ کمیٹی نے لاپتہ افراد کے کمیشن سے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو ہٹانے کے لیے وزیر اعظم کو سفارش کرنے کا فیصلہ کیا۔
کمیٹی میں سابق چیئرمین نیب کی مبینہ آڈیو چلائی گئی جس میں خاتون وکیل طیبہ گل کو جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی کہ اگر میں نے آپ کو کسی اور کے دفتر میں دیکھا تو آپ کے جسم کے ٹکڑے آپ کے گھر جائینگے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سابق چیئرمین نیب کی جانب سے مبینہ ہراسانی کا شکار طیبہ گل کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بلایا تھا۔ انھوں نے کمیٹی کو درخواست لکھی تھی کہ سابق نیب چیئرمین اور میں کی جانب سے مسلسل ہراساں کرنے اور قانونی خلاف ورزیوں پر مجھے سنا جائے۔
کمیٹی نے متاثرہ خاتون طیبہ گل ایڈوکیٹ اور سابق چیئرمین نیب کو بدھ کے روز کمیٹی میں بلایا تھا مگر سابق چیئرمین نیب کمیٹی میں پیش نہیں ہوئے جبکہ طیبہ گل ایڈوکیٹ کمیٹی میں پیش ہوئیں اور کمیٹی کو بریفنگ دی۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سابق چیئرمین نیب نے کمیٹی کے بلانے پر جوابی خط لکھا ہے کہ وہ عید کیلئے کوئٹہ جا چکے ہیں۔ ساری خواتین اجلاس میں بیٹھیں، یہ معاملہ دیکھنا ہوگا اور میرے خیال میں تو ایسے شخص کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے جانے چاہیں۔
طیبہ گل نے کمیٹی کو بتایا کہ میرے خلاف نیب نے ایک جھوٹا ریفرنس بنایا، رولز کے مطابق کال آف نوٹس دینا ہوتا ہے جو مجھے نہیں دیا گیا اور 15 جنوری کو مجھے لاہور سے رات کے وقت گرفتار کیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ گرفتاری سے ایک دن قبل چیئرمین نیب سے فون پر تلخ کلامی ہوئی تھی۔ ایک سوال پر جواب دیتے ہوئے انھوں نے مزید کہا سابق چیئرمین نیب سے لاپتہ افراد کے کمیشن میں ملاقات ہوئی تھی۔
انھوں نے کہا میرے خاوند کی چچی کے لاپتہ ہونے کا مسئلہ تھا اور میں درخواست دینے وہاں گئی۔ لاپتہ افراد کمیشن میں سابق چیئرمین نیب نے میرا نمبر لیا اور پھر بار بار مجھے فون پر کہا اگر آپ کمیشن میں نہیں آئیں گی تو سماعت نہیں ہوگی۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں نے جاوید اقبال کو ایکسپوز کرنے کیلئے ان کی ویڈیو ریکارڈ کی۔
انھوں نے مزید کہا کہ میں نے جاوید اقبال کو کہا مجھے کالز نہ کریں،جاوید اقبال نے جواب میں مجھے کہا کہ میں چیئر مین نیب ہوں تمہارا جینا مشکل کر دوں گا۔
طیبہ گل نے کمیٹی کو بتایا کہ میں نے جاوید اقبال کو کہا میں آپ کی ویڈیوز جاری کر دوں گی، جس کے بعد میرے شوہر کو گرفتار کیا گیا، اس کے بعد مجھے بھی گرفتار کیا گیا، میری گرفتاری کے دوران میرے ساتھ بدترین سلوک کیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ نیب آفس میں ڈی جی نیب شہزاد سلیم آیا اور ڈی جی نیب شہزاد سلیم کے کہنے پر میرے کپڑے اتارے گئے اور میرا میڈیکل بھی نہیں کروایا گیا۔
طیبہ گل نے کہا کہ جیل میں نیب افسر عرفان ڈوگر مجھے ہراساں کرتا تھا کیونکہ وہ میرے تحقیقاتی تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ترجمان نیب نوازش سیال میرے پاس جھنگ آئے اور کہا کہ چیئرمین نیب آپ سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔
پورٹل پر شکایت درج کی تو کچھ لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا جن میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور نیوز ون ٹی وی کے مالک طاہر خان شامل تھے جنھوں نے بعد میں مجھے بلیو ایریا میں ایک دفتر بلایا، مجھ سے ویڈیوز مانگی گئیں، جو میں نے فراہم کیں مگر مجھے معلوم نہیں تھا کہ طاہر خان ایک چینل کے مالک ہیں اور ویڈیو سیاسی مقاصد کے لیے میرے اجازت کے بغیر استعمال کی گئی، مجھے نہیں پتہ ان ویڈیوز سے کس کو فائدہ ہوا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں خاتون کو جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اور نیب کی دیگر افسران کی ہراساں کرنے کی آڈیوز بطور ثبوت پیش کئی گئی۔ کمیٹی چیئرمین نے کہا کہ میرا ارادہ تو جاوید اقبال کے وارنٹ جاری کرنے کا ہے لیکن کمیٹی ممبران نے چیئرمین نیب کو ایک موقع دینے کی سفارش کی۔ پی اے سی نے قائم مقام چئیرمین نیب ظاہر خان کو معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔
پی اے سی نے کہا کہ اس قسم کے معاملات کسی بھی صورت برداشت نہیں کئے جائیں گے، جن افسران پر الزامات لگائے گئے ان پر ایف آئی آر درج ہونگیں اور ایف آئی آر درج کر کے چیف جسٹس اور وزیراعظم کو بجھوائی جائیں گے۔
پی اے سی نے کہا جن لوگوں نے کپڑے پھاڑے ان کو نشان عبرت بنایا جائے گے۔ نیب کے جن افسران کے نام آئے ہیں فوری طور پر معطل کیا جائے۔ جب تک تحقیقات مکمل نہ ہوں ان افسران کو عہدوں سے فارغ رکھا جائے۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو لاپتہ افراد کے کمیشن سے ہٹانے کے لیے وزیر اعظم کو سفارش بھیجنے کا فیصلہ کیا۔