آج کل ہر سو نام نہاد اہم لوگوں کی ٹیلیفون پر ہوئی گفتگو کے ریکارڈز ٹپک رہے ہیں۔ پچھلے مہینے ملک ریاض اور دولہا بھائی آصف زرداری کے درمیان ہوئی گفتگو کا ریکارڈ اِفشا ہوا جس میں ملک صاحب عمران خان کے طرف سے صلح صفائی کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ میڈیا پنڈتوں کا خیال ہے کہ یہ پیغام پی ڈی ایم کیلئے تھا لیکن کیا پتہ جیالوں کے دولہا بھائی تو اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیان اور اس پر شہباز چاچو اور چکری کے مولا جٹ کی ایما پر نواز شریف کے اپنے مبینہ عہد وفا سے روگردانی اور بیچ منجدھار چھوڑنے کے رنج نے دولہے بھائی کو وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے پر کھل کر آمادہ کیا۔ اب کیا پتہ عمران کا پیغام پی ڈی ایم کیلئے تھا یا پنڈی کیلئے۔ واللہ عالم! ٹپکنے کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
گذشتہ دنوں سابق خاتون اول کی پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے ایک اہم بندے کے ساتھ گفتگو کی ریکارڈنگ سامنے آئی جس میں موصوفہ ایک خاص ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹیوٹر پر ٹرینڈ بنانے کی ہدایات دی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ عمران خان کی اپنے سابق پرنسپل سیکرٹری کے ساتھ مبینہ گفتگو کی آڈیو کے چرچے ہیں جو اب تک سامنے نہیں آئی، اس میں عمران خان بطور وزیراعظم اپنے پرنسپل سیکریٹری کو کہہ رہے ہیں کہ اب ہم مبینہ سازش والے خط پر کھیلیں گے۔
اس حقیقت میں تو اب دو آرا نہیں ہے کہ پاکستان میں اس قسم کی ریکارڈنگ کی سہولت اور اختیار کس کے پاس ہے اور کون اس کو لیک کر سکتا ہے؟ دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے لیکس سیویلین سیاستدانوں سے متعلق ہیں۔ اب تک ''واٹ'' سیویلین سیاستدانوں کا لگا ہے اور نقصان سیاست اور عوام کا ہو رہا ہے۔
اب یہ کوئی راز تو رہا نہیں کہ غیر جمہوری اور غیر منتخب قوتیں جو 70 سالوں سے بلا روک ٹوک واحتساب اس بدقسمت قطعہ اراضی اور اس کے زبوں حال عوام پر ناجائز حکمرانی کو قائم رکھنے کیلئے سیاست کو بیمار تعفن زدہ رکھنے، حقیقی عوامی سیاسی قیادت پیدا ہونے کے خلاف موثر تولیدی منصوبہ بندی اور ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے اپنے پیدا کردہ سیاستدانوں کو چاروں زانوں رکھنا ان کا اہم طریقہ واردات رہا ہے۔
اس لئے اگر موجودہ ہیجان خیز اور جذبات انگیز سیاسی ناٹک کو غور سے دیکھا جائے تو مقصد وہی جانا پہچانا ہے۔ گذشتہ عرصہ میں مقدس رنگ خاکی پر جتنے چھینٹے پڑے تھے وہ سب دھل کر پھر سے اُجلا ہو رہا ہے۔
اگست 2014 کے آزادی و انقلابی دھرنوں کے بابت بھی کچھ گفتگو کے ریکارڈ منظر خاص پر آیا تھا لیکن عوامی سطح پر اس کو لیک کرنا کا کسے کو جرات نہ ہوسکا۔ اونچی دیواروں کے محلوں کے بند کمروں میں جب اس پر بات ہوی تو حسب طریقہ واردات فرد پر ذمہ داری ڈال دی گئی اور اس فرد کو تعریفی اسناد ومراعات کے ساتھ رخصت کیا گیا۔ لیکن اس کے بعد 'ہائو یو ڈیئر' کے سزا کے طور پر اس گفتگو کو ریکارڈ کرنے اور سامنے رکھنے والوں کا حشر ہم نے دیکھ ہی لیا۔ جس سیویلین ادارے پر ریکارڈ کرنے کا شک گزرا تھا۔ 2018ء میں اپنی حکومت آنے کی بعد اس کے اینٹ سے اینٹ بجا کر اس کو نکیل ڈال کر اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
اس تمام غل غپاڑہ میں نہ پھر دھرنوں کے حوالہ سے نہ 2018 کے الیکشن میں مخصوص سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو آئے ٹیلیفون کالز، نہ آرٹی ایس بیٹھنے، نہ فارم 45 اور نہ ووٹوں کے بکسوں کو غائب کرنے کے بارے میں میڈیا پر کوئی قطرہ ہی نہیں ٹپکا۔
دوسرے طرف تولیدی عمل سے گزرنے والا کوکا کولا (برگر مشہور ہونے سے پہلے تقریباً 90 کی دہائی تک برگر کلاس کیلے کوکا کولا کا اصطلاح استعمال ہوتا تھا) چی گویرا کہہ رہا ہے کہ اگر مجھے دیوار سے لگایا گیا تو میں سب کچھ بتا دونگا۔ تھوڑی دیر کیلئے میرے دل میں ایک کمینی سی امید اور خوشی نے انگڑائی لی کہ جناب اب آخرکار مانند ' میں تو ڈوب رہا ہوں تمیں بھی ڈوبوں گا صنم' کے مصادق یہ سچ بول کر اعتراف جرم کریگا کہ کس نے ان کے غبارے میں ہوا بھرا تھا، کس نے ان کیلئے دھرنے کروائے تھیں، کس نے ان کے لئے الیکشن کے عمل کو یرغمال کیا تھا اور یہ سب کس مقصد کیلئے، کیونکہ یہ خود اعتراف کر رہا ہے کہ حکومت کی دوران ان کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔اور یہ بھی بتائیگا کہ اس عمل نے ملک و قوم کو کتنا سیاسی و مالی نقصان پہنچایا۔ میں نے سوچا کہ یہ عوام سے معافی مانگے گا اور اصل چی گویرا کے راستے پر پہلا قدم رکھنے کا کوشش کریگا۔
بدقسمتی سے اگلے سانس میں میرے امید اور خوشی پاش پاش ہو گئی۔ جس طرح 1971 میں جس دن پاکستانی افواج نے جنگ بندی کرکے سرنڈر کیا عین اس وقت جنرل یحییٰ نے قوم سے خطاب میں کہا کہ ہمارا جنگ جاری رہے گی لیکن کھیتوں میں کھلیانوں میں۔ اس طرح نومولود چی گویرا نے رونے والا منہ بنا کر کہا کہ میں وہ سارے نام اور کردار اِفشا کردوں گا جس نے مجھے کرسی سے ہٹانے کی نام نہاد سازش میں حصہ لیا۔ اوہ بھئی اس بے اختیار کرسی جانے کا اتنا رنج و غم اور پھر سے اسی تنخواہ و شرائط پر اور اس ہاتھوں سے اسی کرسی پر بیٹھنے کیلئے اتنا کشت و جان کنی۔
اب آپ آئین، قانون اور انسانی حقوق کا رونا رونے لگے، اب آپ کو ملک میں مارشل لا اور میڈیا پر پابندی نظر آنے لگی۔ آپ بھول گئے کہ یہ سب کچھ تو 2018 میں اپنی تکمیل تک پہنچ گیا تھے اور اب تک انیس بیس کے فرق کیساتھ جاری و ساری ہیں۔
جب سے آپ کرسی پر بیٹھ گئے تھے اس وقت سے شروع پختون تحفظ مومنٹ ( پی ٹی ایم) سے ہوا جس کو نام نہاد مین سٹریم میڈیا سے بلیک آؤٹ کیا گیا۔ اس کے رہنماؤں اور کارکنان پر درجنوں کے حساب سے غداری کے پرچے کاٹے گئے۔ درجنوں کو عقوبت خانوں میں ڈال دیا گیا۔ علی وزیر کے حق میں آپ کے کسی وزیر یا آپ نے کوئی بات کی۔ آج جن ٹائوٹس کو آپ صحافی ظاہر کر کے ان کے حقوق کے بات کرتے ہیں ان سب نے علی وزیر سمیت ان تمام معصوم سیاسی اور جید صحافیوں کو غدار و ملک دشمن ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔
آپ کے دور حکومت میں بدنام زمانہ 'ایکشن ان ایڈ آف سیول پاور ریگولیشن' کا کالا قانون جو مارشل لا سے بھی بڑھ کر ہے کو پورے صوبہ پختونخوا پر لاگو کیا گیا، اور جب پشاور ہائیکورٹ کے بہادر چیف جسٹس وقار سیٹھ نے جان کی بازی لگا کر اس غیر آئینی قانون کو ختم کیا تو آپ کی حکومت نے اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرکے سٹے کیا جو اب تک برقرار ہے۔
آپ بھول گئے تھے کہ کتنے صحافیوں پر آپ کی حکومت کے دوران حملے ہوئے، کتنے اغوا ہوئے ، کتنوں پر تشدد ہوا، کتنے اب تک لاپتہ ہیں، کتنے ملازمت سے برخاست کروائے گئے لیکن آپ کی نظر میں تو وہ لفافہ صحافی تھے جو محض لفافوں کی خاطر اپنی جان جوکھم میں ڈالتے تھے۔
جناب یہ سب ظاہر کر رہا ہے کہ آپ کا مسئلہ نہ آئین وقانون ہے، جمہوریت اور نہ عوامی و پارلیمانی بالادستی ہے بلکہ ادارے کے کندھوں پر بیٹھ کر کرسی تک پہنچنا اور عوام کی بجائے ایک ادارے کو یہ اختیار دینا ہے۔ اس لئے آپ سے لے کر ان میڈیا میں بٹھائے ہوئے ٹائوٹس تک وہ ادارے میں ایک خاص فرد کو گالیاں دے رہے ہیں، لعن طعن کر رہے ہیں جو اب چند مہینوں کا مہمان ہے، نہ کہ اس ادارے کے سیاسی کردار اور مداخلت پر اعتراض ہے۔
جہاں تک انصاف کا تعلق ہے اس پر تو آپ اگر بات نہ کریں تو اچھا ہے۔ آپ جو کر رہے تھے سو کر رہے تھے لیکن آپ کے ناک کی نیچے جو چیئرمین احتساب بیورو اور لاپتہ افراد کمیشن نے جو کیا وہ صرف آپ کے نہیں اس ملک کے نظام انصاف کے ماتھے پر نہ مٹنے والا سیاہ دھبہ ہے۔ تاریخ میں جسٹس جاوید اقبال المعرف ''سرتاپا چومنے والی سرکار'' کا نام بے ضمیر، بے شرم اور بدعنوان ہرکارے کے استعارہ کے طور پر یاد کیا جائیگا۔
نہ ختم ہونے والی ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرنے والوں کا احتساب ہونے کا کوئی امید نظر نہیں آ رہی ہے اور اس کے بغیر ملک وقوم کیساتھ کھلواڑ ختم نہیں ہونے والا۔
چاچو اور دولہا بھائی نے مولانا کے اقتدا میں یہ سب کچھ کرنے والوں کے ساتھ آئین، قانون کی حکمرانی، عوامی و پارلیمانی بالادستی کا متعہ کروایا، اور عمران خان کے نام پر طے کی گئے غیر اخلاقی رشتے کی شرائط میں الفاظ کی ہیرا پیری کرکے اخلاقی جواز فراہم کرنے کے کوشش کے۔ اب چاچو اور دولہا بھائی حتیٰ الوسع کوشش کر رہے ہیں کہ یہ متعہ ایک سال تک کامیابی سے چلے تاکہ اگلے سال زیادہ ہدیہ و شکرانہ کے بدلے اس کو مستقل کیا جائے۔ اس لئے چاچو نے گذشتہ روز سلامتی کمیٹی کی اجلاس میں محسن داوڑ کو سخت سوالات پوچھنے پر ٹوکتے رہے۔