وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ جب قرآن کا معاملہ آتا ہے تو پوری قوم متحد ہوتی ہے۔ سویڈن میں ہوئے واقعے سے پوری امت مسلمہ پریشان ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک بدبخت کے ہاتھوں قرآن پاک کی بے حرمتی کے دلخراش واقعے پر اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے کے لیے یوم تقدیس قرآن کے عنوان سے آج ہم سب یک آواز ہو کر ملک گیر احتجاج کریں گے اور بعد از نماز جمعہ پاکستانی مسلمانوں کے تمام طبقات ناموسِ قرآن کا پرچم اٹھا کر اپنا پرامن احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ قرآن ہمارے دلوں میں ہے۔ قرآن ہمارے لیے صرف قرات ہی نہیں بلکہ زندگی گزارنے کے لیے رہنما اصول ہے۔
https://twitter.com/CMShehbaz/status/1677160751121702913?s=20
علاوہ ازیں گزشتہ روز کو پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قرآن کی بے حرمتی کے واقعے کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کی گئی جو وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے پیش کی تھی۔
قرارداد میں سویڈن کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف ایسے مناسب اقدامات کرے جو صرف قانونی کارروائی تک محدود نہ ہوں بلکہ یقینی بنائے کہ آئندہ کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آئے۔
متن کے مطابق اسلاموفوبیا کے جڑے واقعات پر بھی ویسی ہی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے جیسا کہ دیگر مذاہب کے خلاف نفرت انگیزی پر کیا جاتا ہے۔
قرارداد کی منظوری سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں مطالبہ کیا کہ سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل فوری ہنگامی اجلاس بلائیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ سویڈن کی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنا ہو گی اور جواب دینا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنے کی کوشش ہے۔جان بوجھ کر مسلمانوں کے خلاف آگ بھڑکانے کی کوشش کی گئی۔ سویڈن میں قرآن کی توہین پر دنیا بھر میں اربوں مسلمانوں کے دل دُکھی ہیں۔
اس سے قبل پاکستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے اسلامو فوبیا اور مذہبی منافرت سے نمٹنے کے لیے ایک ہنگامی اجلاس کا انعقاد کا اعلان کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل فوری بحث کے لیے اپنے شیڈول میں تبدیلی کرے گی۔ اس وقت اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے سالانہ تین اجلاسوں میں سے دوسرا اجلاس 14 جولائی تک جنیوا میں جاری ہے۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کی کونسل کے نمائندے نے نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس کا موضوع پوری دنیا میں مذہبی عدم برداشت میں اضافہ ہوگا۔
کونسل کے ترجمان پاسکل سم نے بتایا کہ ‘اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل ‘مذہبی منافرت کے کے حوالے سے عوامی سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات میں خطرناک حد تک اضافے پر بحث کرے گی۔ پاسکل نے پاکستان کی طرف سے دائر کی گئی درخواست کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کچھ یورپی اور دیگر ممالک میں قرآن پاک کی حالیہ بے حرمتی سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی منافرت کے پھیلاؤ کے خلاف اقدامات کے لیے تمام ممالک کو مل کر اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ہنگامی اجلاس اور بحث کے لیے درخواست پاکستان اور تنظیم برائے اسلامی تعاون ( او آئی سی ) کے کئی اراکین کی جانب سے بھیجی گئی ہے۔ ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جو انسانی حقوق کونسل کے رکن بھی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس ہنگامی بحث کا امکان رواں ہفتے ہی متوقع ہے تاہم اس کی تاریخ اور وقت کا تعین انسانی حقوق کونسل کے بیورو کے ذریعہ کیا جائے گا جس کا اجلاس جاری ہے۔
پاکستان نے گزشتہ ہفتے قرآن پاک کے ایک نسخے کو سرعام نذرآتش کرنے کے “قابل نفرت فعل” کی شدید مذمت کی تھی۔
دفتر خارجہ نے اس گھناؤنے فعل کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ اظہار رائے اور احتجاج کی آزادی کے نام پر امتیازی سلوک، نفرت اور تشدد کے لیے اس طرح کی جان بوجھ کر اکسانے کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت تمام ممالک پر فرض ہے کہ وہ مذہبی منافرت پر مبنی ایسے واقعات کو روکیں جو تشدد بھڑکانے کا باعث بنتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک میں پچھلے چند مہینوں کے دوران اس طرح کے اسلامو فوبک واقعات اس قانونی فریم ورک پر سنگین سوالات اٹھاتے ہیں جو نفرت پر مبنی ایسی کارروائیوں کی اجازت دیتا ہے۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ آزادی اظہار رائے کا حق کسی کو بھی نفرت کو ہوا دینے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو سبوتاژ کرنے کا لائسنس فراہم نہیں کرتا ہے۔
اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ واقعے پر پاکستان کے تحفظات سوئیڈن تک پہنچائے جا رہے ہیں۔
دفتر خارجہ نے بین الاقوامی برادری اور قومی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ زینوفوبیا، اسلاموفوبیا اور مسلم مخالف نفرت کے بڑھتے ہوئے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قابل اعتماد اور ٹھوس اقدامات کریں۔
کئی سال پہلے عراق سے فرار ہو کر سوئیڈن آنے والے 37 سالہ سلوان مومیکا نے بدھ کے روز پولیس سے ’قرآن کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنے‘ کے لیے اس فعل کے ارتکاب کی اجازت طلب کی تھی۔
سلوان مومیکا نے مقدس کتاب پر پہلے پتھراؤ کیا اور کئی صفحات کو اس وقت جلا دیا جب دُنیا بھر کے مسلمان عید الاضحیٰ کی چھٹی منا رہے تھے اور سعودی عرب میں مکہ مکرمہ میں سالانہ حج کا آغاز ہو گیا تھا۔
اس سال کے اوائل میں ڈنمارک کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اسٹرام کرس کے رہنما پالوڈن نے جمعے کے روز ڈنمارک کی ایک مسجد کے سامنے قرآن پاک کا نسخہ نذر آتش کر دیا تھا جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا تھا۔
اس نے 21 جنوری کو بھی اسی طرح کی بے حرمتی کرتے ہوئے سوئیڈن میں ترک سفارت خانے کے سامنے اسلام اور امیگریشن مخالف مظاہرے کے دوران قرآن پاک کے ایک نسخے کو نذر آتش کردیا تھا۔