جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہائی پروفائل سیاسی کیسز، آئین سے متعلق کیس، مارشل لاء کے نفاذ کا معاملہ یا اسی طرح کے دیگر چیلنجز ہیں جو ہمارے بنیادی قانون کو چُھوتے ہیں یا اس میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ اس میں ہمیشہ عدلیہ نے اپنا کندھا زمین پر لگوایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تک ہماری عدلیہ کی تاریخ میں ایسا کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا جو کسی طالع آزما کی موجودگی میں دی گئی ہو کہ تم نے غلط کام کیا ہے۔
شوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر نقوی جنرل (ر) فیض حمید کے بہت قریب تھے۔ مظاہر نقوی سپریم کورٹ میں آوَٹ آف ٹرن آئے ہوئے ہیں اور انہیں لانے والے بھی فیض حمید ہی تھے۔ ان کا شمار سپریم کورٹ کے ان 7 ججز میں ہوتا ہے جو آؤٹ آف ٹرن آئے ہوئے ہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس کی صدارت اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کر رہے تھے۔ ریفرنس سننے کیلئے دوسرے 2 ممبر آصف سعید کھوسہ اور تیسرے جج گلزار تھے۔
جسٹس (ر) شوکت صدیقی نے کہا کہ جب مظاہر نقوی ریفرنس کا سامنا کررہے تھے تب جنرل (ر) فیض حمید نے ثاقب نثار سے رابطہ کیا اور کہا کہ ہمارے بندے کو اس سے نکالیں۔ ثاقب نثار نے کہا کہ ہمیں مسئلہ نہیں مگر بینچ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ جسٹس کھوسہ سے ریکیوز کرالیں اور تو ہم آپ کے بندے کو اس میں سے نکال لیں گے۔ فیض حمید کی جانب سے ریکیوز کروایا گیا۔ ان کے بعد سینئر جج آئے اور اسی دن جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ریفرنس خارج ہو گیا۔