یہ ایک بڑی خبر تھی، تمام اخبارات اس پر تبصرے کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: عاصمہ جہانگیر کی یادیں، قسط 9: غائب عورت ڈھونڈ کر رہوں گی
مجھے 5 نومبر کو عاصمہ جی کا فون آیا کہ موقع پر چلنا ہے۔ اسی روز ہم عاصمہ جہانگیر کی گاڑی میں کوٹ رادھا کشن کے گاؤں کی جانب روانہ ہوئے، میں نے اس سے قبل اپنے دیرینہ ساتھی اور دوست محمود بٹ سے رابطہ کیا کہ وہ بھی ساتھ چلیں۔ وہ پاکستان بھٹہ مزدور یونین کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ وہ بھی ہمارے ساتھ تھے۔
رائے ونڈ اجتماع کے درمیان سے گزرتے ہوئے مذہب پر بحث
رائے ونڈ سے قبل ہزاروں کی تعداد میں لوگ رائے ونڈ کے سالانہ تبلیغی اجتماع میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ان کی گاڑیاں ہر طرف موجود تھیں۔ ان کے بیچوں بیچ ہم راستہ بناتے جا رہے تھے اور سیاسے تبصرے بھی جاری تھے۔ میں کہہ رہا تھا کہ اس اجتماع کی آڑ میں بے شمار دیگر کاروبار بھی ہوتے ہیں۔ اسلحے اور منشیات کی سمگلنگ سے لے کر مذہبی جنونی دگشتگرد سرگرمیوں کو فروغ دیتے ہیں۔ مذہب کا معاشرے میں اثر مسلسل بڑھ رہا ہے اور اس سے رجعتی نظریات کے پھیلانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ عاصمہ جی بھی ملاازم کے خلاف اپنا نقطہ نظر بتا رہی تھیں۔ یہ ایک پروڈیکٹو بحث تھی اور سفر بھی طے ہو رہا تھا۔
پھر ہم نے عاصمہ جی سے پوچھا کہ کچھ بتائیں کہ بھٹہ مزدوروں کے حقوق بارے جو بانڈڈ لیبر ابولیشن ایکٹ 92 بنا، اس کے پیچھے ان کی کیا سرگرمیاں رہیں؟ انہیں ہم نے بہت کچھ یاد کرا دیا تھا۔
بھٹہ مزدوروں پر مظالم کے خلاف عاصمہ کی جنگ کب سے جاری تھی
"یہ 30 جولائی 1988 کو سپریم کورٹ کے سینیئر جج محمد افضل ظلہ کو گرمیوں کی طویل چھٹیوں میں موصول ہونے والی درشن مسیح المعروف رحمتے اور اس کے ساتھ 20 ساتھیوں کی ایک ٹیلی گرام تھی جس نے عدالت کو جنجھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا نوٹس لینے کو کہا تھا۔ اور یہ بھی کہ ہم سے رابطہ عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کے ذریعے کیا جا سکتا ہے، جسٹس افضل ظلہ نے اس پر تمام فریقین کو طلب کر لیا۔ وکیل بھی، بھٹہ مالکان بھی اور بھٹہ مزدور بھی؛ عدالت کے حکم پر اس مسئلہ کا حل نکالنے والے اجلاسوں میں شعیب نیازی (بھٹہ مالکان کا نمائندہ)، عاصمہ جہانگیر، احسان اللہ خان (بانڈ لیبر لبریشن فرنٹ)، میاں عبدالستار نجم مرحوم، شاہد محمود ندیم (اجوکا والے، اس وقت ہیرلڈ رسالہ کے نمائندہ تھے)، کالا اور عزیز بیگم (بھٹہ مزدوروں کے نمائندے) اور خالد محمود (محنت کشوں کے وکیل) شریک ہوتے رہے۔ اس وقت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خلیل الرحمان رمدے تھے جو بعد ازاں پاکستان سپریم کورٹ کے جج کے طور پر ریٹائرڈ ہوئے۔
اس ایشو پر عدالت کے حکم پر تیار ہونے والی تفصیلی رپورٹوں کو پڑھنے اور وکلاء و مزدوروں کی بحثوں کے بعد 17 ستمبر 1988 کو جسٹس ظلہ نے ایک تاریخ ساز فیصلہ میں پیشگی نظام کو مکمل طور پر ختم کر دیا اور بھٹہ مزدوروں کی آزادی کی قانونی بنیادیں رکھ دی تھیں۔ عدالت کے حکم پر میں ( عاصمہ جہانگیر) نے بھی ایک خصوصی خفیہ رپورٹ بھٹہ مزدوروں بارے پیش کی جسے عدالتی کاروائی کا حصہ بنا لیا گیا تھا"۔
ہم اس لیجنڈ کے ساتھ سفر کر رہے تھے جو بھٹہ مزدوروں کی آزادی کی جدوجہد کی تاریخ کو بنا رہی تھی
عاصمہ جی ہمیں محنت کشوں کے سب سے زیادہ استحصال زدہ طبقے کی تاریخ کے جن پہلوؤں بارے ہمیں بتا رہی تھیں، ان سے ہم عمومی طور پر تو واقف تھے مگر اتنی تفصیل پہلی بار سنی تھی۔
ہم اس لیجنڈ کے ساتھ سفر کر رہے تھے جو بھٹہ مزدوروں کی آزادی کی جدوجہد کی تاریخ کو بنا رہی تھی اور اس کا اہم ترین حصہ تھیں۔
اور اب یہ 2014 تھا، عاصمہ جی اور ان کے ساتھیوں کی زبردست جدوجہد کے باوجود ایک مسیحی جوڑے کو مذہبی جنونیوں نے جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ اب ان کو بانڈڈ لیبر کے علاوہ مذہبی جنونیت کا بھی سامنا تھا۔ یہ دونوں مزدور بھی بانڈد لیبرتھے جسے اس بھٹہ سے باہر جانے پر روک دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے پیشگی لی ہوئی تھی۔
ہم اب اس علاقہ میں تھے جہاں یہ بھٹہ موجود تھا۔ عاصمہ جی نے کہا پہلے ارد گرد والے کسی بھٹہ پر چلتے ہیں وہاں سے معلومات لیتے ہیں پھر جائے وقوعہ پر جائیں گے۔
ایک یونین کا ساتھی
ہم ایک ساتھ والے بھٹہ پر گئے، مزدور سہمے ہوئے تھے، بات کرنے سے گھبرا رہے تھے۔ پہلے ایک عورت نے بات شروع کی، پھر اور مزدور بھی آ گئے۔ عاصمہ جی کے آنے کا سن کر مجمع سا لگ گیا۔ کوئی بھی پوری تفصیل بتانے سے قاصر تھا۔ یہ معلوم ہو گیا کہ یہ اشتعال انگیزی مقامی مسجد کے مولوی نے نماز فجر کے بعد 'مسلمانوں' کو جو 'غیرت' دلوائی تھی، اس کا اثر تھا اور الزام جھوٹا تھا۔
ایک مزدور اٹھا اور کہنے لگا، میں تو یونین کا ممبر ہوں، محمود بٹ والی یونین کا، میرے پاس اس کا کارڈ بھی ہے، اس نے شاید کبھی محمود بٹ کو دیکھا بھی نہ تھا۔ اور اسے معلوم بھی نہ تھا کہ جس بٹ کی وہ بات کر رہا ہے وہ اس کے سامنے کھڑا ہے۔ عاصمہ جی نے میری طرف مسکرا کر دیکھا۔ میں نے اس مزدور کو کہا کہ محمود بٹ تو تمہارے سامنے ہے۔ مزدور تو بہت خوش ہوا اپنے لیڈر کو سامنے دیکھ کر، وہ اب بڑھ بڑھ کر ہماری خدمت میں مصروف تھا۔
وہ کمرہ جہاں شمع بی بی اور شہزاد مسیح کو بند کیا گیا اور پھر نکال کر آگ لگائی گئی
یہاں سے کچھ معلومات لے کر اس جگہ پہنچے جہاں یہ اندوہناک واقعہ رونما ہوا تھا۔ اس کمرہ کو دیکھا جہاں اس جوڑے کو بند کیا گیا تھا اور اس کی چھت توڑ کر انہیں وہاں سے نکال کر سپرد آتش کیا گیا تھا۔ اس بھٹہ کے اوپر گئے جہاں آگ لگائی گئی تھی۔ عاصمہ جی تو یہ برداشت ہی نہ کر پا رہی تھیں۔ وہ واپس کار میں جا بیٹھیں۔ ہم نے کچھ ایک دو لوگوں سے بات کی اس بھٹہ کے اوپر۔ بھٹہ اس واقعہ کے بعد ایک ویران جگہ تھی، پولیس کی گاڑیاں وہاں موجود تھیں مگر نہ تو مزدور تھے نہ مالک۔
اس کے بعد ہم شہزاد کے والدین کے گھر گئے۔ وجاں باضابطہ تعزیت کی۔ یہاں میڈیا کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ انہوں نے عاصمہ جی سے بات کرنے کو کہا۔ عاصمہ جی نے بھٹہ مزدوروں کو زندہ جلانے کے واقعہ کو پاکستان کی سیاہ ترین تاریخ کا ایک حصہ قرار دیا۔ "مذہبی اقلیتوں کو جنونیت کا شکار بنانا اب رواج بنتا جا رہا ہے، مذہبی اقلیتیں پاکستان کے برابر کے شہری ہیں۔ ان پر توہین رسالت کا غلط الزام لگایا گیا ہے۔"
پانچ کو سزائے موت، باقی سب بری
یہاں سے چل کر ہم کوٹ رادھاکرشن پولیس سٹیشن پہنچے۔ صبح سے عاصمہ جی نے کچھ نہ کھایا تھا۔ ایک ایس پی ان کے منتظر تھے۔ انہوں نے گرفتار افراد بارے بتایا اور کہا کہ کسی کو بخشا نہیں جائے گا۔ انہوں نے کہا اس مقدمہ میں ریاست خود مدعی ہو گی تاکہ مدعی پارٹی پر پریشر ڈال کر صلح ہی نہ کر لی جائے۔ ایسا عام طور پر ایسے کیسوں میں ہوتا رہا ہے۔
پولیس والوں نے چائے کا انتظام کیا ہوا تھا۔ اور کچھ مقامی بسکٹ بھی رکھے تھے۔ ان سے فارغ ہو کر لاہور اب ایک دوسرے روٹ سے روانہ ہوئے۔ رات گئے لاہور پہنچے۔
اس مقدمہ میں 52 افراد کو نامزد کر کے مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
یہ مقدمہ انسداد دہشتگردی کے عدالت میں چلایا گیا تھا۔ 2016 میں واقعہ کے دو سال بعد عدالت نے پانچ افراد کو سزائے موت سنائی، آٹھ کو دو دو سال کی قید اور بعض کو بری کر دیا گیا تھا۔ جبکہ بھٹہ مالک بھی بری ہونے والوں میں شامل تھے۔ 2018 میں 20 مزید افراد کو بری کر دیا گیا۔
بھٹہ مزدور عاصمہ جہانگیر اور ان کے ساتھیوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود، تمام تر قانون سازی کے باوجود آج بھی زیادہ تر پیشگی نظام میں جکڑے ہوئے ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ حکومتوں کا اس طرف شعوری طور پر توجہ نہ کرنا اور قانون پر عملدرآمد کرانے میں مکمل ناکامی ہے۔