بچپن میں مولانا صاحب سے پٹی پڑھنے مسجد جاتے تھے تو واپسی پر لالا جی کی دکان سے ایک روپے کے پاپڑ اور ایک چورن ضرور لیتے تھے۔ جب بھی ہم لالا کی دکان پر جاتے تو لالا پوچھتا چلو بیٹا آج کیا پڑھا ہے مجھے بھی ذرا سناؤ۔ جو زیادہ ٹھیک سناتا تو لالا اس کو ضرور کوئی چیز مفت میں دے دیتا۔ ہم سبق دو وجوہات کی بنا پر یاد کرتے تھے، ایک استاد جی کی مار سے بچنے کے لئے اور دوسرے لالا جی سے انعام پانے کے لئے۔
مجھے اکثر پچھلا سبق بھول جاتا تھا تو مسجد جانے سے پہلے ایک بار لالا جی کے پاس جا کر یاد کرتا کہ استاد جی کی مار سے بچا جا سکے اور مسجد میں اس لئے یاد کرتا تھا کہ لالا جی سے انعام مل جائے۔
لالا کی دکان میں مولانا کی افطاری
رمضان المبارک کے مہینے میں افطاری کے وقت ہم سب بچوں کو گھروں سے باہر کر دیا جاتا کہ روزہ دار آرام و سکون سے افطاری کر سکیں۔ تو ہم سب لالا جی کی دکان پہ اکٹھے ہو جاتے۔ اکثر افطاری کے وقت گھر پہ کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو ہم بھاگ کر لالا کی دکان سے لاتے کیونکہ باقی دکانیں بند ہوتی تھیں تو لالا اور مسجد کے مولانا صاحب دکان میں دسترخوان پر ساتھ افطاری کرتے تھے۔ مولانا صاحب کا اپنا گھر ہمارے گاؤں میں نہیں تھا۔ کھانا لالا جی کے گھر سے آتا تھا۔ مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ لالا جی اور استاد جی آپس میں بھائی ہیں۔ دونوں کی آپس میں بہت دوستی تھی۔ گاؤں میں ہر کام لالا جی اور مولانا صاحب کے مشورے سے ہوتا تھا۔
ہم محلے میں شام کو کرکٹ کھیلا کرتے تھے تو اکثر لالا جی کی آواز آتی "بیٹا بس کرو، چلو جلدی کرو نماز کا وقت ہو چکا ہے"۔ لالا جی کی صبح صبح آواز آتی، "مولوی صاحب کب تک سوتے رہو گے، اٹھ جاؤ تہجد کا وقت نکلتا جا رہا ہے"۔ مولانا صاحب کہتے "ہائے لالا جی آپ بھی بڈھے ہو گئے ہیں۔ نیند آپ کو بھی نہیں آتی آج کل"۔ میری آنکھ اکثر لالا اور مولانا صاحب کی باتوں سے کھلتی تھی۔ ایک رات لالا جی کی آواز پر مولانا صاحب نے کچھ نہیں کہا اور وہ خاموشی سے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
لالا جی مسلمان نہیں
کئی سال گزر گئے لیکن مجھے نہیں پتہ چلا تھا کہ لالا جی مسلمان نہیں۔ اچھا ہندو ہے تو کیا ہوا؟ لالا جی بہت باشعور اور بہترین انسان ہیں۔ لالا جی کی باتوں کے بغیر سارے گاؤں کی کہانیاں ادھوری ہیں۔
لیکن مولانا صاحب کی موت کے بعد ایک نیا مولوی مسجد میں آیا۔ سب سے پہلے اس نے پرانے استاد جی کو برا بھلا کہنا شروع کیا۔ پھر کہا کہ ہندو سے لین دین کرنا جائز نہیں۔ پھر کہا کہ چونکہ لالا کی دکان کی دیوار مسجد کی دیوار سے لگتی ہے تو لالا کو ادھر سے دکان خالی کرنا ہوگی، حالانکہ مسجد والی زمین میں بھی لالا نے مرضی سے عطیہ دیا تھا۔ آج کل مولوی اس لالا جی کی دکان میں اپنا کاروبار چلا رہا ہے۔ لیکن لالا نے سب کچھ برداشت کر لیا۔ کیونکہ لالا جی اسی گاؤں اور اسی مٹی کا ہے جب کہ مولوی باہر کا بندہ ہے۔
'آپ بھی اسلام سے خارج ہیں'
پچھلی شام لالا جی ملے۔ میں نے حال احوال پوچھا تو رونے لگے۔ میں نے پوچھا لالا جی کیوں، خیریت ہے، کیا ہوا؟ بولے، بیٹا اسلام تو چودہ سو سال پہلے آیا ہے، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ نیا مولوی کدھر سے پڑھ کر آیا ہے۔ اب دیکھو بیٹا پورے محلے میں پانی نہیں، سب لوگ مسجد سے پانی بھر کر لے جا رہے ہیں لیکن مولوی صاحب نے کہہ دیا ہے کہ مسجد کا پاک پانی کوئی ہندو استعمال نہیں کر سکتا۔ گھر میں پانی نہیں۔ ساری زندگی اس مٹی میں گزری، سب کچھ برداشت کیا، صرف اس لئے کہ مجھے اس دیس سے، اس مٹی سے محبت ہے۔ میں اس پاک مٹی میں مرنا چاہتا ہوں۔ پتہ ہے بیٹا، کربلا کفر و اسلام کی جنگ نہیں، وہ ایک ظالم اور ایک مظلوم کی کہانی ہے"۔
میں نے کہا "لالا جی آپ پریشان نہ ہوں، میں مسجد سے آپ کے لئے پانی بھر کر لاتا ہوں"۔ لیکن مسجد کے دروازے پر مولوی نے مجھے روک کر کہا، "ہندوؤں سے دوستی کرنے والا اسلام سے خارج ہے، اس لئے تم مسجد میں داخل نہیں ہو سکتے"۔