IATA کے مطابق عالمی سطح پر طیارہ سازی کے شعبہ کو اس سال 314 ارب ڈالر کا خسارہ ہونے کا امکان ہے۔ فضائی شعبہ میں اب تک 2.5 ارب نوکریاں خطرے میں ہیں۔ یہ فضائی صنعت کی تاریخ میں سب سے بڑا خسارہ ہے۔ فضائی صنعت کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت لگا جب دیگر بڑے ممالک نے مقامی اور بین الاقوامی پروازوں پر پابندی لگا دی۔
اگر پاکستانی فضائی صنعت کی جانب ایک مرتبہ نظر دوڑائی جائے تو ادھر کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہم سب کی پسندیدہ پی آئی اے کا عام دنوں میں پرسان حال کوئی نہیں تھا، اب تو پھر پورا ملک کرونا کے ہاتھوں یرغمال بنا پڑا ہے۔ ہم سب کی چہیتی فضائی کمپنی ایک ایسے گڑھے میں گر چکی ہے، جہاں سے رہائی کا امکان اگلے کئی ماہ یا کئی سالوں تک نہیں۔ حیرت انگیز طریقے سے یہ گڑھا بھی اپنے ہاتھوں ہی کھودا گیا ہے۔
پی آئی اے کا ایک اور مسئلہ اس کا ضرورت سے بڑا عملہ ہے۔ محدود وسائل اور بجٹ کے باوجود اتنا بڑا عملہ رکھنا کسی حماقت سے کم نہیں۔ سنگاپور ائیرلائن سے اگر ہم پی آئی اے کا موازنہ کریں تو فرق واضح ہو جاتا ہے۔ بظاہر دونوں ائیرلائنز کا عملہ تعداد میں تو برابر ہے مگر پی آئی اے کے مقابلے میں سنگاپور ائیرلائنز کے پاس تقریباً 100 سے زائد طیارے موجود ہیں۔ اس بات سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہماری ائیرلائن لاک ڈاؤن کے دوران کس قدر زوال پزیر ہو چکی ہے۔
یہ بھی خدشہ ہے کہ سعودی حکومت اس سال حج پر پابندی لگا دے گی، اس صورت میں سب سے زیادہ نقصان پی آئی اے کو ہی ہوگا۔ ہماری حکومت نے بروقت توجہ نہ دی تو یقیناً لاک ڈاؤن کی وجہ سے پی آئی اے کا دیوالیہ ہو جانا ہے۔