اطلاعات کے مطابق کراچی پولیس نے بحریہ ٹاؤن میں احتجاج اور ہنگامہ آرائیوں کے الزام میں 80 سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔
بحریہ ٹاؤن کراچی احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے بعد 8 سے زائد قوم پرست جماعتوں کے لیڈران کیخلاف بھی مقدمات درج کئے گئے ہیں جن میں سید جلال محمود شاہ، ڈاکٹر قادر مگسی، ایاز لطیف پلیجو، خالق جونیجو اور دیگر قوم پرست لیڈران شامل ہیں۔
پاکستان میں چند چینلز کے علاوہ مین سٹریم میڈیا نے کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف ہونے والے اس احتجاج کی کوریج نہیں کی مگر سوشل میڈیا پر اس احتجاج نے خاصی پزیرائی حاصل کی جبکہ اس پر سوشل میڈیا صارفین نے مختلف آراء پیش کی ہیں۔ کچھ صارفین تشدد پر مبنی اس احتجاج کے خلاف ایکشن کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ کچھ صارفین سندھ حکومت پر ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن کے پشت پناہی کا الزام لگارہے ہیں۔
سندھ کے قوم پرست جماعتوں نے کل ہونے والے تشدد پر مبنی احتجاج پر موقف دیتے ہوئے کہا ہے کہ قوم پرست جماعتوں کا املاک کو نقصان پہنچانے سے کوئی تعلق نہیں جبکہ کچھ قوم پرست کارکنان کو خدشہ ہے کہ اس احتجاج کو جواز بنا کر قوم پرست جماعتوں اور تنقیدی آوازوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے گا۔
قومی عوامی تحریک کے صدر اور سندھ کے قوم پرست لیڈر و دانشور ایاز لطیف پلیجو نے کل کے واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سندھی پرامن لوگ ہیں اور بحریہ ٹاوٴن واقعہ میں آگ لگانے والوں کا قوم پرستوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ایاز پلیجو نے کہا کہ پولیس کل کے واقعے کی تحقیقات کرے کیونکہ سندھی پرامن لوگ ہیں، کل جو آگ لگائی گئی اور توڑ پھوڑ کی گئی ان کا سندھی قوم پرستوں اور سیاسی کارکنوں سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ شرپسند ہیں اور پولیس کو ان کے خلاف کاروائی کرنی چاہیئے. انھوں نے مزید کہا کہ سندھ کے لوگ بھوکے اور بیروزگار ہیں اور اگر ان کے پاس باقی بچی زرعی زمین بھی لے لی گئی تو وہ برباد ہوجائیں گے جبکہ ان کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ سندھ کی سرکاری اور غیر سرکاری زمینوں پر قبضہ قبول نہیں، لوگوں کی زمینیں چھین کر انہیں بھوکا مارا جا رہا ہے تو ان کے پاس یہی راستہ بچا ہے کہ وہ احتجاج کریں۔
ایک سوال کے جواب پر کہ بحریہ ٹاؤن اس زمین کی ملکیت کے دعویدار ہے پر ایاز لطیف پلیجو نے موقف اپنایا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ بحریہ ٹاؤن نے زمینیں نہیں خریدیں، کچھ زمینیں انھوں نے لوگوں سے خرید لی ہیں لیکن باقی جو لاکھوں ایکڑ زمینیں گبولوں، جوکیو اور دیگر اقوام کی ہیں ان کی زمینوں کے کھاتے ان کے مرضی کے بغیر لینڈ ڈپارٹمنٹ میں تبدیل کیے گئے جبکہ جبری طور پر ان پر قبضے کئے گئے ہیں۔
سندھ کے قوم پرست جماعتوں کے مطابق سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو 16 ہزار ایکڑ زمین کے بدلے رقم ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا مگر بحریہ ٹاؤن اس پراجیکٹ کو توسیع کر رہی ہے اور ان کی نظریں چالس سے پچاس ہزار ایکڑ زمین پر قبضے کی ہے۔
سندھی قوم پرست جماعت سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر جلال مقصود شاہ نے نیا دور میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کراچی میں کل جو تشدد اور ہنگامہ آرائی ہوئی یہ ایک منصوبے کے تحت کی گئی، سندھ کے سیاسی جماعتوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں. انھوں نے کہا کہ دس جماعتوں نے بحریہ ٹاؤن کے قبضے کے خلاف ایک پرامن احتجاج کا اعلان کیا تھا اور جہاں احتجاج ہورہا تھا وہاں سے کئی فرلانگ دور پچاس سے ساٹھ بندوں نے پرامن احتجاج کو خراب کرنے کے لئے ہنگامہ آرائی شروع کی اور املاک کو آگ لگائی باوجود اس کے کہ وہاں پر پولیس کی بھاری نفری سمیت بحریہ ٹاؤن کی بھاری تعداد میں سیکورٹی موجود تھی مگر انھوں نے اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی اور جب ہنگامہ آرائی شروع ہوئی تو شیلینگ اور لاٹھی چارج دور بیٹھے پرامن احتجاجیوں پر شروع کیا گیا جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ہوا تاکہ قبضہ گروپوں کے خلاف مستقبل میں کوئی مزاحمت نہ کی جائے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ اس سارے معاملے میں سندھ حکومت کا کیا کردار ہے پر جواب دیتے ہوئے جلال مقصود شاہ نے کہا کہ سندھ حکومت اور بحریہ ٹاؤن اس پورے عمل میں ایک ساتھ ہے ورنہ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہوتی۔
جلال مقصود شاہ کا ماننا ہے کہ سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو صرف 16 ہزار ایکڑ کی اجازت دی تھی مگر اب بحریہ ٹاؤن کی نظریں چالیس سے پچاس ہزار ایکڑ پر ہے اور بحریہ ٹاؤن کے علاوہ بہت سارے دیگر قبضہ گروپ بھی اس کھیل میں شامل ہیں۔
ایک سوال کے جواب کہ کیا ریاست اور سندھ حکومت اس احتجاج کو جواز بنا کر قوم پرست جماعتوں کے خلاف گھیرا تنگ کررہی ہے پر سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے صدر نے جواب دیا کہ پرامن جلسہ جلوس اور احتجاج ہر شہری کا بنیادی اور آئینی حق ہے اور ہم نے آئینی حق کو استعمال کرتے ہوئے پرامن احتجاج کیا۔ مقصود شاہ کا ماننا ہے کہ اس ہنگامہ آرائی اور تشدد سے سیاسی جماعتوں کا کوئی تعلق نہیں اور یہ ایک منصوبے کے تحت ہوا۔
نیا دور میڈیا نے سندھ حکومت کے ترجماج مرتضیٰ وہاب سے اس حوالے سے موقف جاننے کی کوشش کی مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔