پاکستانی نوجوان پرتشدد اور دہشتگرد سياسی سوچ کا متحمل نہيں ہو سکتا

01:36 PM, 7 Jun, 2022

سلمیٰ بٹ
آج دکھنے اور محسوس ہونے والا اجتماعی، سماجی اور انفرادی تشدد، سوچ اور فکر کی اس شدت کی عکاسی کرتی ہے جسے جنم دينے ميں ہم نے گذشتہ چار سے زائد دہائيوں سے کوئ چارہ نہيں چھوڑا۔

منظر عام پر شدت پسند رويے، عمل اور تقارير آج سنائی ديتی ہيں مگر ان کی پيدائش اور افزائش تعليم، تربيت، اقدار، مذہب کا استعمال اور سماج نيز ہر سطح پر کی گئی۔ جب 1980 کی دہائی کے دورِ آمريت ميں نوجوانوں کی شناسائی اسلحہ سے کروائی گئی۔

اس سے قبل پچاس اور ساٹھ کی دہائی کا ايسا معاشرہ جہاں اختلاف سماجی حق اور برداشت انسانی فرض سمجھا جاتا تھا۔ جہاں پڑوس بين المذاہب اور مختلف مکتبہ فکر سے ہونا ايک معمول کی بات تھی۔ مختلف نسل، مذہب، فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل گروہ، سماج، معاشرہ اور قوم تشکيل دی جاتی تھی۔

ہم آہنگی، بردباری اور تحمل اعلیٰ ظرفی کی پہچان سمجھے جاتے تھے۔ تھوڑا اور پيچھے جھانکيں 1947ء سے پہلے انہيں بستيوں ميں صورت حال يہ تھی کہ ميری نانی کی پڑوسن سہيلی ہندو تھيں جو ان کے ساتھ جمعہ کی نماز ميں شرکت کرنے مسجد چلی جاتی تھيں اور يہ کوئی تعجب کی بات نہيں تھی۔

ايک ايسے پرامن اور ہم آہنگ معاشرے کے برعکس آج کے دور ميں گھٹن، تنگ نظری اور عدم برداشت کا عالم يہ ہے کہ چند سياسی رہنما محض سياسی مخالفت کی بنا پر کھلے عام خود کش حملہ آور ہونے کی دھمکی متعدد بار دے چکے ہيں۔ جس سے دو نتائج اخذ کئے جا سکتے ہيں۔

ايک انہيں اس بات کا ادراک نہيں کہ وہ کس حیثيت اور منصب پر براجمان ہو کر گفتگو کر رہے ہيں۔ ان کا تعلق ايسی سياسی جماعت سے ہے جو خود کو نوجوانوں کی علمبردار کہتی ہے تو کيا وہ سينکڑوں نوجوانوں کو سياست کے ذريعے خود کش بمبار بننے کی ترغيب دينا چاہتے ہيں؟ جبکہ ضرورت تو بھوک، معياری تعليم، ہنر، تکنيکی صلاحیت اور فراہمی روزگار کی ہے۔

جب سياسی رہنما ویڈيو پيغام، عوامی اجتماع يا پريس کوريج ميں ان خونی اور جان لیوا خيالات کا برملا اظہار کرتے ہيں اور لوگوں کو اکساتے ہيں۔ بيشتر مواقعوں پر پارٹی کا مرکزی ليڈر بھی اپنے سياسی مخالفين کے خلاف اسی سوچ کی عکاسی اپنی تقارير ميں کرتے پائے جاتے ہيں۔ تو کيا نتيجہ ميں لگنے والی آگ اور چلنے والی گولی کسی بيرونی سازش کی مرہون منت ہے؟

ضرورت تو مہنگائی قابو کرنے، ڈالر کو لگام دينے، ایف اے ٹی ایف کی بليک لسٹ سے بچنے، آئی ايم ايف کی کڑی شرائط سے نمٹنے، عالمی تنہائی کو باہمی تعلقات ميں بدلنے کی ہے۔ کيا تشدد پر اکسائے ہوئے مسلح جتھے يہ سب دلوا سکتے ہيں؟ بعد ازاں پارٹی نہ تو ڈسپلنری ايکشن ليتی ہے، نہ روک تھام کرتی ہے بلکہ يہی وصف دہرايا جاتا ہے تو کيا اسے پارٹی پاليسی سمجھا جائے؟

دوسری طرف ايسے افراد کی سوچ کی ساخت ميں تشدد پسند تبديلی رونما ہو جانے کا انديشہ ہے۔ جب يہ خود کش حملے کی دھمکی ديتے ہيں تو گويا ان کے لئے انسانی جان لينا، خون بہانا، املاک کو نقصان پہنچانا، تشدد پھيلانا، آگ ميں جھلسا دينا ايک فخريہ پيشکش ہے۔ کيا ان کے لئے يہ انتشار کے بجائے احساس کاميابی ہے؟

اگر ايسا ہی ہے تو پھر بات تشويش اور تنقيد سے آگے جا پہنچی ہے۔ اس تشخيص کو بحالی سوچ کی ضرورت ہے۔ جامع پلان مرتب دينا ہو گا جس ميں استدعا کو بڑھائے بغير کوئی چارہ نہيں ہے۔

تشدد پسند سوچ کی پذيرائی اس امر کا ثبوت ہے کہ يہ اب اکائی نہيں بلکہ اکائيوں کا مجموعہ ہے جو بس آپس ميں جوڑنا باقی ہے اور پھر ہجوم کے ہاتھ ميں رونما ہونے والے واقعات، سڑک پر دو بھائيوں کو چوری کے الزام ميں سرعام تشدد کرکے قتل کر دينا، پاکستان ميں مقيم سری لنکا کے شہری کو تشدد کی بھينٹ چڑھا دينا، مشعال قتل، شمع اور شہزاد کو زندہ جلا دينا جيسے کئی واقعات اور کيس بطور پس منظر موجود ہيں۔

اس سوچ کے سياسی منظر نامے ميں تبادلے اور پذيرائی کی گنجائش ناممکن بنانی ہو گی۔ سياسی جماعتوں کو کم از کم حدود وقيود کا تعين کرنا ہوگا کہ سياست اور سياسی جماعت کے اغراض ومقاصد جمہوريت کو پروان چڑھانا ہے۔ جمہوری سوچ اور عمل کو فروغ دينا ہے۔

ملک و قوم کو درپيش چيلنجز جن ميں ماحولياتی تبديلی کے اثرات، پانی، کاشتکاری اور خوراک کی قلت، نوجوانوں کی شموليت، سياسی استحکام، معاشی استحکام، پاکستان کی اقوام عالم ميں پہچان، ان سب کا سدِباب خود کش حملہ آور نہيں کر سکتے۔ اس کے لئے سياسی بالغ، مثبت اور جامع فکر وعمل رکھنے والی سياسی قيادت ناگزير ہے۔
مزیدخبریں