پاکستان کے انڈیا میں ہائی کمشنر سہیل محمود اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے انڈیا واپس جا رہے ہیں جنہیں پلوامہ حملوں کے بعد وطن واپس بلا لیا گیا تھا جب کہ کرتار پور راہداری پر مذاکرات بھی طے شدہ پلان کے مطابق ہوں گے۔ یہ دونوں ملکوں میں کشیدگی کم کرنے کے تناظرمیں ایک انتہائی اہم پیشرفت ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران دونوں ملک ایک دوسرے کے سفیروں کو احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کرتے رہے ہیں۔
وزارتِ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستانی ہائی کمشنر اپنی ذمہ داری سنبھالنے نئی دہلی جا رہے ہیں۔پاکستان نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کا وفد 14 مارچ کو طے شدہ پلان کے مطابق نئی دہلی کا دورہ کرے گا جب کہ بھارتی وفد 28 مارچ کو پاکستان آئے گا۔
پاکستان کی جانب سے انڈیا کو ملٹری ڈائریکٹوریٹ کی سطح پر تعلقات برقرار رکھنے کے بارے میں بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان اور انڈیا کی افواج کے ڈائریکٹوریٹ برائے ملٹری آپریشنز ہاٹ لائن پر ہفتہ وار بنیادوں پر ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ تاہم، یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا گزشتہ دو ہفتوں کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے باعث ایسا کوئی رابطہ برقرار رہا ہے یا نہیں۔
ان اقدامات سے بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ دونوں ملکوں میں کشیدگی ختم ہونے جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق، یہ پیشرفت بہت سے طاقتور فریقوں کے بیک چینل رابطوں کے باعث ممکن ہو پائی ہے۔
یاد رہے کہ جوہری صلاحیت کے حامل دونوں ملکوں میں کشیدگی کم کرنے کے لیے کئی عالمی طاقتیں کوشاں رہی ہیں جن میں امریکہ، برطانیہ، روس، سعودی عرب اور متحدۂ عرب امارات وغیرہ شامل ہیں۔
دوسری جانب بھارتی حکام نے کہا ہے کہ کشمیر کی سرحد پر دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تجارت کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا ہے ۔ یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں فی الحال ہڑتال جاری ہے اور حالات ہنوز کشیدہ ہیں۔
اِدھر وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری سمیت مختلف جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کو دعوت دی ہے کہ وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل کے حوالے سے تجاویز دیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں اور بالخصوص خارجہ پالیسی کی تشکیل کے حوالے سے حکومت اور حزبِ اختلاف کا ایک صفحے پر یکجا ہونا نہایت اہم ہے۔