محکمۂ خارجہ کے نائب ترجمان رابرٹ پالاڈینو نے کہا:’’ہم نے ان رپورٹوں کو دیکھا ہے اور ہم اس معاملے کا گہرائی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ ہم اس معاملے کی تصدیق نہیں کرسکتے کیوں کہ یہ امریکی پالیسی سے متعلق ہے۔ ہم امریکی دفاعی ٹیکنالوجی کے حامل دوطرفہ معاہدوں کو عوام میں نہیں لاتے۔‘‘
گزشتہ روز امریکی اخبار نیویارک ٹائمز سے منسلک صحافی ماریہ ابی حبیب نے کہا تھا کہ اگر پاکستان نے انڈین طیارے مار گرانے کے لیے امریکی ساختہ ایف 16 طیارے استعمال کیے بھی ہیں تو اس صورت میں بھی اس نے خریداری کے معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔
27 فروری کو پاکستانی فضائیہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ اس نے پاکستانی فضائی حدود میں دو انڈین جنگی طیاروں کو مار گرایا ہے جب وہ پاکستانی طیاروں کا تعاقب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
تاہم، انڈین حکام نے یہ شکایت کی تھی کہ پاکستانی فضائیہ کے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونے والے طیاروں میں ایک ایف 16 بھی شامل تھا۔
بھارت نے اصرار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے انڈیا کے خلاف ایف 16 طیارے استعمال کیے تھے اور یوں اس نے امریکا کے ساتھ خریداری کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جس کے مطابق یہ جنگی طیارے صرف اور صرف انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہی استعمال ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب سابق چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے سینٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پاکستان ایف 16 طیاروں کو اپنے دفاع کے لیے استعمال نہیں کرسکتا تو پھر ان طیاروں کا مصرف کیا رہ جاتا ہے؟ انہوں نے حکومت سے استفسار کیا کہ کیا ایف 16 طیاروں کی خریداری کے معاہدے میں امریکہ نے ایسی کوئی شرط عائد کر رکھی ہے کہ یہ انڈیا کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتے؟