عورت مارچ: حقوق نسواں کا عظیم پلیٹ فارم

12:45 PM, 7 Mar, 2022

کلثوم صادق
ہر سال کی طرح اس بار بھی مارچ کے مہینے کا آغاز ہوتے ہی ہر جانب سے عورت مارچ پر پابندی کی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ جن کا مقصد عورت مارچ کو روکنا ہی نہیں بلکہ عورتوں کے اپنے حق کے لیے بلند آواز کو دبانا بھی مقصود ہے۔

دنیا بھر میں مظلوم طبقات اپنے حقوق کی بات کرتے اور انہیں حاصل کرتے ہیں جس کی ایک واضع مثال یکم مئی 1886 کو شکاگو، امریکہ میں ہونے والی مزدورں کی جدوجہد میں اپنی جان کا نذرانہ دے کر تمام مزدورں کے اوقات کار کو ٹھیک کروا لیا۔ اسی طرح 8 مارچ کا دن بین الاقوامی سطح پر 1917ء میں عورتوں کی جنگ کے دوران خوارک اور امن کے لیے چار روزہ ہڑتال اور پھر ووٹ کا حق لینے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ جس میں ان خواتین کی کاوشوں کو سراہا جاتا ہے جنہوں نے معاشی، سیاسی سماجی اور ثقافتی شعبوں میں اپنی خدمات سرانجام دیں اور ان حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہے جو انہیں نہیں دیے گئے۔

سبط حسن کی کتاب "ماضی کے مزار" میں ہجری دور کا ذکر ہے جب انسان لکڑی اور پتھر کی مدد سے پھل توڑتے اور جڑیں کھودتے تھے۔ ثمریابی کے اس دور کا انسان چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں لیکن ایک وحدت کے تصور پر محیط تھا جہاں عورت اور مرد برابر تھے لیکن عورت کو پھل، پھول اور بچے پیدا کرنے کی وجہ سے فوقیت حاصل تھی یعنی قبیلے کا وجود اور افزائش کی واحد ذمہ دار عورت کو مانا جاتا تھا۔

اسی طرح سے عراق کے ابتدائی دور میں اموی نظام رائج تھا۔ جہاں حاملہ عورتوں کی مورتیوں کو تخلیقی عمل اور زمین کی زرخیزی کے ساتھ جوڑا جات تھا۔ رفتہ رفتہ پیداوار اور تجارتی لین دین میں اضافے سے اموی نظام کی جگہ ابوی نظام نے لے لی جس کا مقصد ناصرف معیشت پر قبضہ کرنا بلکہ معاشرتی طور پر مرد کی طاقت کو سرجشمہ بناتے ہوئے عورت کی حیثیت کو ضمنی بنانا تھا۔

ہمارے معاشرے میں جہاں ہر بات کو مذہب کے پیرائے میں دیکھنے کی عادت ہے وہاں پسند کی شادی کرنے یا دشمن سے بدلہ لینے کے لیے غیرت کے نام پر اپنے گھر کی خواتین کا قتل کر دیا جاتا ہے۔ جہاں مذہب کا حوالہ دیتے ہوئے عورت کو برابر کے حقوق کی بات کی جاتی ہے وہیں خواتین اور کمسن بچیوں کا اغوا، زیادتی، قتل، راہ چلتے، کام کرنے والی خواتین کو ہراساں کرنا، کمسن بچیوں کی شادی بوڑھے مرد سے کرنا جائز سمجھا جاتا ہے۔

ہم صرف پنجاب کی ہی بات کریں تو 2017 سے لے کر 2022 جنوری تک چالیس ہزار خواتین اغوا ہوئیں یعنی ہر سال آٹھ پزار اور ہر مہینے 650 خواتین۔ سائوتھ ایشیا میڈیا نیوز ایجنسی کے مطابق 2020ء تک 2960 زیادتی کا شکار ہوئے بچوں کی رپورٹس درج ہوئیں جن میں 51 فیصد بچیاں اور 49 فیصد بچے تھے، یعنی یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی لیکن اکثر والدین بدنامی کے ڈر سے رپورٹ نہیں کرواتے۔

دوسری جانب خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے ایک نجی ادارے نے اپنی میڈیا جائزہ رپورٹ میں لکھا کہ گھریلو ملازمین میں 65 فیصد پندرہ سال سے کم عمر بچے ہوتے ہیں جو گھروں میں کام کرتے ہوئے مالکوں کے ہاتھوں جنسی زیادتی، مار پیٹ اور تشدد کا شکار ہوتے ہیں اور آواز اٹھانے پر چوری کے الزام کا سامنا یا پھر دھمکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عورت کوئی چیز نہیں بلکہ انسان ہے اس کے اندر خدا نے عقل وشعور عطا کیا ہے۔ مرد اور عورت دونوں کو برابر پیدا کیا گیا ہے۔ اس لیے وہ بھی اقرار اور انکار دونوں کا حق رکھتی ہے۔ لیکن اکیسویں صدی میں ہونے کے باوجود ایسا لگتا ہے جیسے ہم ابھی بھی پتھر کے دور میں جی رہے ہیں جہاں مذہب، قبائل، سیاست اور سماجی روایات کے نام پر عورتوں کو پسماندہ رکھنے میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔

آج کی عورت کو یہ حق ہے کہ وہ "میرا جسم میری مرضی" کا نعرہ اس لیے نہیں لگاتی کہ اسے بلا وجہ کی آزادی درکار ہے بلکہ اس لیے کہتی ہے تاکہ بحیثیت انسان اسے تسلیم کرتے ہوئے احترام کا رشتہ قائم کیا جائے۔

خواتین کو پسماندہ رکھنے یا دبانے کے پیچھے ہمارے معاشرے کا ڈر واضع نظر آتا ہے ارے بھائی بندہ تب ڈرتا ہے جب اس کی صلاحیتیں مخالف پارٹ سے کم ہوں جبکہ ہمارے معاشرے میں مرد ہمہ وقت اپنی مردانگی کا ڈھونڈرا پیٹتا ہے تو پھر کمزور طبقے کا اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے پر خوفزدہ کیوں ہے؟

آخر میں صرف اتنا کہنا ہے کہ ہمیں اپننے دل کو کشادہ کرتے ہوئے محروم طبقات بشمول خواتین، بچے، اقلیتی افراد، معذور افراد کے حقوق کی ناصرف حفاظت کرنی ہوگی بلکہ بحیثیت انسان ان کا احترام بھی کرنا ہوگا۔ عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ میں حصہ لینے کا مطلب انسانی حقوق کا دفاع ہے۔ آئیں ہم سب اس جدوجہد کا حصہ بنیں۔ تمام لوگوں کو عورتوں کا عالمی دن مبارک ہو۔

 
مزیدخبریں