الیکشن کمیشن آف پاکستان میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت تین رکنی کمیشن نے عمران خان کو پارٹی چیئرمین شپ سے ہٹانے کے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر اور درخواست گزار آفاق احمد الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔
عمران خان کے وکیل نے الیکشن کمیشن میں جواب جمع کرایا جس میں بتایا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی پر کسی کو پارٹی صدارت سے ہٹایا جاسکتا ہے۔
جواب میں واضح کیا گیا ہے کہ عمران خان کو کسی عدالت نے آرٹیکل 62 ون ایف کےتحت نااہل نہیں کیا ہے اور الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں ہے۔
جواب میں حوالہ دیا گیا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو عدالت نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا تھا۔
اس موقع پر چیف الیکشن کمشنر نے سوال کیا کہ کیا عدالت نے الیکشن کمیشن کو اس کیس پر سماعت سے روکا ہے؟ جس کا جواب دیتے ہوئے بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو کوئی سخت ایکشن لینے سے روکا ہے۔
اس موقع پر چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت کرنا سخت ایکشن تو نہیں ہے اور کسی عدالت نے الیکشن کمیشن کو کیس کی سماعت سے نہیں روکا ہے۔
درخواست گزار محمد آفاق کے وکیل الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے اور بتایا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹسز غلط ایڈریس اور تاریخ پر موصول ہوئے ہیں اور ایسا قدم الیکشن کمیشن کے عملے کی غلطی ہے۔ الیکشن کمیشن مجھے غلط نوٹس بھیجتارہاہے،اسحاق ڈار کے نوٹس بھی مجھے بھیجے جارہے ہیں، ڈپٹی ڈائریکٹر کی نااہلی کی وجہ سے نوٹس غلط اور تاخیر سے پہنچے۔
درخواست گزار آفاق احمد نے مزید کہاکہ درخواست گزار آفاق احمد نے کہاکہ سماعت کے بعد نوٹس ملنے کا جواب دہ کون ہے؟
اونچا بولنے پر الیکشن کمیشن کی محمد آفاق کو سرزنش کی اور چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اونچا بولنے سے آپ ہم پر دباؤ نہیں ڈال سکتے تاہم الیکشن کمیشن نے درخواست گزار محمد آفاق اور ان کے وکیل کو کمرہ عدالت سے نکال دیا ہے۔
بعدازاں الیکشن کمیشن نے محمد افاق کی عمران خان کو پارٹی چیئرمین شپ سے ہٹانے کی درخواست خارج کردی۔