بے نسلے کتے بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ جگہ جگہ منہ مارتے پھرتے ہیں۔ ان کا کوئی گھر گھاٹ نہیں ہوتا ہے۔ یہ دھوبی کے کتے جیسے ہوتے ہیں۔ بدعادات ہوتے ہیں۔ بھونکنا عادت بنا لیتے ہیں۔ ہر آتے جاتے پر بھونکنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ انسانی آبادیوں کے قریب رہتے ہوئے بھی انسان سے دشمنی رکھتے ہیں۔ آبادی میں رہنے والوں کی خوب جان پہچان رکھتے ہیں کہ کس پر زیادہ بھونکنا ہے۔ کس پر غرانا ہے۔ کس کو ڈرانا ہے۔ حیثیت اور مرتبے کو دیکھ کر بھونکتے ہیں۔
اپنے جیسوں پر بالکل نہیں بھونکتے ہیں بلکہ دوستانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اپنی ٹولیاں بناتے ہیں۔ جتھے بن کر پھرتے ہیں۔ حرام بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ کمزورطبقات سے چھین کر کھانا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ پیٹ بھر جائے تو فاتحانہ انداز میں مٹرگشت کرتے ہیں۔ رات کو بے سدھ ہو کر جدھر جگہ ملے بسیرا کر لیتے ہیں۔
کم تر درجے کے ان کتوں سے دوستی اچھی ہے اور نہ ہی دشمنی زیب دیتی ہے۔ یہ گھات لگا کر بھی کاٹتے ہیں اور خاموشی سے بھی حملہ آور ہوتے ہیں۔ کمزور اور بے بس پر اچانک بپھر جاتے ہیں۔ اوش اوش کی آواز بھی نہیں سنتے۔ کم ظرفی اور کمینگی کا ایسا بے مثال مظاہرہ کرتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کتے کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔ کتے صرف روٹی کے ہیں۔ ملتی رہے تو شانت نہ ملے تو درندے بن جاتے ہیں۔ پل بھر میں سارے انسانی احسانات بھلا دیتے ہیں۔
طاقت ور اور بڑے قد کاٹھ سے خائف رہتے ہیں۔ بڑی ادا سے آگے پچھے دم ہلاتے پھرتے ہیں۔ شیر کو بھی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ باقی سب گستاخ ہیں۔ ملعون ہیں۔ غدار ہیں۔ دشمن ہیں۔ یہ بات شیر بھی مان لیتا ہے مگر وقت آنے پر پاس بھی نہیں پھٹکنے دیتا۔
اول تو یہ بات کتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ شیر کو کس کھاتے میں اپنی مدد کی پیشکش کرتے ہیں۔ محض اس لئے کہ کمزور جاتی پر اپنا جعلی رعب اور دبدبہ بنا سکیں۔ لیکن انہیں شاید یہ نہیں معلوم کہ کتے شیر نہیں بن سکتے۔ کتے، کتے ہی رہتے ہیں۔ کیا ہی بات ہوتی کہ کتے بھی موبائل والے کیمرے چلا لیتے تو اپنے سے طاقت اور حیثیت و مرتبہ رکھنے والوں کے ساتھ سلفیاں بنا بنا کر فیس بک والوں کا ناطقہ بند کر دیتے کہ آج فلاں بلٹیریئر کے ساتھ لڑائی کے موقع پر فتح کا جشن مناتے ہوئے۔ فلاں ٹائیگر کے ساتھ جنگل میں منگل کی شاندار پارٹی میں شریک اعلیٰ نسل کے دوستان کی محفل میں محو گپ شپ ہیں۔
کتوں کی خصلت ہی بدل جاتی۔ بھونکنے کے انداز بھی مختلف ہوتے۔ بھونکتے بھی تو سر میں بھونکتے اور کاٹ کھانے کی خو بھی کچھ کم ہوتی۔ جس سے انسانی زندگی میں حفاظت کا احساس کم ہو جاتا۔ سکیورٹی کے لئے اتنے بندوبست نہ کرنے پڑتے۔ کتوں سے ڈر اور خوف میں خاطر خواہ کمی آتی۔
مگر حضرت انسان بھی تو ازل سے فوقیت چاہتا ہے۔ اشرف المخلوقات ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتا رہتا ہے۔ عدم مساوات اور طبقاتی تقسیم کی لکیر کا خالق بھی تو خود ہی ہے۔ کتوں کا گلہ کیا کرنا وہ کون سے تعلیم یافتہ ہیں۔ انہیں تو سیکھانا پڑتا ہے۔ تربیت کرنا پڑتی ہے۔ محبت سکھاتے ہیں تو محبت کرتے ہیں۔ بھونکنا سکھاتے ہیں تو بھونکتے ہیں۔ کاٹنا سکھاتے ہیں تو کاٹتے ہیں۔ چیرپھاڑ سکھاتے ہیں تو وحشت اور درندگی کرتے ہیں۔