لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے شہباز شریف کی درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ شہباز شریف کو پہلی مرتبہ آشیانہ میں 2018 میں گرفتار کیا گیا اور گرفتاری کے بعد رمضان شوگر ملز کا کیس بنا دیا گیا ان کی فروری 2019 میں ضمانت ہوئی جس کے بعد حکومت نے نام ای سی ایل میں ڈال دیا لیکن ہائی کورٹ نے مارچ 2019 نام ای سی ایل سے نکال دیا۔
شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ اس کے بعد حکومت نے نیا طریقہ نکالا اور نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا۔ شہباز شریف، برطانیہ میں ڈاکٹر مارٹن سے چیک اپ کے لیے وقت لے چکے ہیں اور ان کی کل کی فلائٹ بک ہے۔ شہباز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بلیک لسٹ میں نام شامل کرنے کے لیے صدر مسلم لیگ (ن) کو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا تھا۔ شہباز شریف اپوزیشن لیڈر ہیں ان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کرنا غیر قانونی ہے۔
اس پر جسٹس علی باقر نجفی نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف کا نام کسی بلیک لسٹ میں ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ درخوست مفروضے کی بنیاد پر ہے اور بغیر ہدایات لیے میں عدالت کی معاونت نہیں کر سکتا۔ جسٹس علی باقر نجفی نے ہدایت کی کہ وہ ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کریں۔
لاہور ہائیکورٹ میں مختصر وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ ہدایات نہیں لے سکا، لوگ چھٹی کرکے جا چکے ہیں۔انہوں نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ کیس چھٹیوں کے بعد رکھ لیں۔
دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ شہباز شریف خود کہاں ہیں؟ امجد پرویز نے جواب دیا کہ شہباز شریف لاہور میں موجود ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ انہوں نے ریٹرن ٹکٹ کیوں نہیں لی جس پر ان کے وکیل نے جواب دیا کہ کورونا کی وجہ سے ریٹرن ٹکٹ فوری ملنا ممکن نہیں ہے لیکن اگر عدالت چاہتی ہے کہ واپسی کے وقت کا بتایا جائے تو اس حوالے سے یقین دہانی کرانے کو تیار ہیں۔ عدالت نے پھر شہباز شریف کو 2 بجے طلب کر لیا۔
بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ کے طلب کرنے پر شہباز شریف، مریم اورنگزیب اور عطا تارڑ کے ہمراہ لاہور ہائیکورٹ پہنچ گئے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف کے میڈیکل میں کہیں نہیں بتایا کہ کوئی ایمرجنسی ہے۔ ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ تو آن لائن ہو جاتی ہے اور قرنطینہ تو 14 سے 10 دن کا کبھی نہیں سنا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ شہاز شریف نے اتنے میڈیکل کے پراجیکٹ بنانے کا دعویٰ کیا ، وہاں اپنا علاج کروائیں۔
جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ پوچھا یہ تھا کہ کیا بلیک لسٹ میں نام ہے؟ ایک ایسا شخص جس کا نام ای سی ایل میں نہیں ہے اور بلیک لسٹ کا معلوم نہیں، اس پر وفاقی حکومت کے تحفظات کیا ہیں؟ جسٹس علی باقر نجفی نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ شہباز شریف واپس نہیں آئیں گے، کیا وفاقی حکومت کو کوئی گارنٹی چاہیے؟ درخوست گزار پہلے بھی ملک سے جا کر واپس آچکے ہیں۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ ہمیں کچھ وقت چاہیے، چھٹیوں کی وجہ سے لوگ جا چکے ہیں۔ اس موقع پر سرکاری وکیل نے شہباز شریف کا نواز شریف کے ساتھ برطانیہ جانے کا حلف نامہ پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے عدالت سے درخواست کی ہمیں وقت دیا جائے تاکہ ہم دیگر اداروں سے مشاورت کرلیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ شہباز شریف نے عدالت میں گارنٹی دی تھی، اس میں تین باتیں طے ہوئی تھیں، ایک شرط کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ جمع کروائی جائے گی، نواز شریف کی طبعیت بہتر ہوگی تو واپس آئیں گے۔ اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ نواز شریف کا نہیں ہے۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ شہباز شریف منی لانڈرنگ کیس کے مرکزی ملزم ہیں جبکہ گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف کے باہر جانے سے عدالتی کارروائی متاثر ہوگی؟
جسٹس علی باقر نجفی نے شہباز شریف سے استفسار کیا کہ آپ کو باہر جانے کی کیا ایمرجنسی ہے؟ جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ وہ کینسر کے مریض رہے ہیں اور مرض کا علاج نیو یارک اور لندن میں ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے کہا گیا کہ ڈاکٹر مارٹن سے ریگولر چیک اپ کراتا رہوں جبکہ جیل میں ہونے کی وجہ سے علاج میں تعطل آیا۔ جیل میں ہونے والے میڈیکل ٹیسٹ کی رپورٹ کی روشنی میں فوری علاج کی ضرورت ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کا وطن واپس آنے کا کب تک کا ارادہ ہے؟ شہباز شریف نے جواب دیا کہ جیسے ہی ڈاکٹرز نے علاج کے بعد جانے کا کہا میں فوراً واپس آجاؤں گا، میں پہلے بھی عدالت سے نہیں بھاگا تھا۔ جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف اپنی واپسی کی کوئی ضمانت دے سکتے ہیں۔ بعد ازاں امجد پرویز نے شہباز شریف کی 3 جولائی کو پاکستان واپسی کی بھی ٹکٹ پیش کی۔
دوران سماعت شہباز شریف نے کہا کہ میں ماں سے ملا، ان کے پاؤں کو ہاتھ لگایا اور پاکستان واپس آگیا کیونکہ میں اس دھرتی کا بیٹا ہوں اور ملک کی خدمت کے لیے صحتمند رہنا چاہتا ہوں۔ بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد شہباز شریف کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی جانب سے علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کے لیے اپنا نام بلیک لسٹ سے نکلوانے سے متعلق دائر درخواست منظور کرتے ہوئے لندن جانے کی اجازت دے دی۔