کم ذات کا بیٹا پڑھ لکھ کر جمہوریت پر یقین رکھنے لگ گیا تھا۔ اس نے اپنے باپ سے عجیب وغریب قسم کے سوال شروع کر دیے کہ اگر چودھری کا بیٹا مر گیا تو کون چودھری ہوگا؟ باپ نے مدبرانہ طور پر جواب دیا کہ اس کا بیٹا۔ کم ذات کے بیٹے نے پھر وہی سوال داغ دیا کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس دفعہ باپ نے پوچھا کہ پتر تو کہنا کیا چاہتا ہے؟ اس نے کہا ابا کبھی جمہوریت اس گاؤں میں آئے گی؟ باپ نے تاریخی جواب دیا سارا گاؤں بھی مر جائے تو بھی گاؤں کا چودھری، تو نہیں بن سکے گا۔
یعنی جمہور کی رائے کا کوئی احترام نہیں ہوگا۔ حالیہ دنوں کی تحریک عدم اعتماد دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان کو بھی جمہوریت کی بدعا ہے، یہاں کوئی وزیراعظم اپنی مدت ملازمت کبھی پوری نہیں کر پایا اور خان صاحب جو نیک شریف ایماندار و خوبرو تھے، ان کی مدت ملازمت کا معاہدہ بھی 6 سال قبل ختم کر دیا گیا۔
سابق وزیراعظم پاکستان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں تسلیم کیا ہے کہ مقتدر حلقوں نے انھیں استعفیٰ، قبل از وقت انتخابات اور عدم اعتماد کا سامنا کرنے کا اختیار دیا تھا۔ میرے خوبرو ریاست مدینہ کے داعی وزیراعظم نے عدم اعتماد کا راستہ چنا، کیونکہ جنرل مشرف ڈرتے نہیں تھے، میرے عظیم کپتان گھبراتے نہیں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جس نے سیاسی شطرنج کی یہ بساط بچھائی تھی وہ نہایت زیرک انسان ہے۔
ہانڈی چڑھی تھی، اس لئے اس میں سے کچھ تو نکلنا تھا، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ میرے کپتان جو ریاست مدینہ کا خواب لے کر بنی گالہ سے نکلے تھے، اب بنی گالہ میں تشریف فرما ہیں، اور فسطائیت کو ہوا دے رہے ہیں۔
لیکن اس تمام مشق یعنی عدم اعتماد سے ہمارے کپتان کوئی سبق سیکھیں گے تو اس کا جواب فی الوقت نہیں ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی بجائے خان صاحب نے وہی وطیرہ اختیار کیا ہے جو حکومت میں آنے سے پہلے تھا۔
گلی گلی جلسہ اور احتجاج، اور دشنام طرازی کا طرز عمل اسی طرح جاری ہے جس طرح حکومت میں آنے سے پہلے جاری و ساری تھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ تقطیب (پولرائزیشن) کا اس حد تک شکار ہو چکا ہے کہ یا آپ خان صاحب کے ساتھ ہیں یا آپ غدار اور استعمار کے ہرکارے ہیں۔ خان صاحب نے اپنی حکمرانی کی پٹاری میں سے کارکردگی نکالنے کی بجائے، مذہب اور قومیت کے نام کا اژدھا نکالا ہے، جو مقتدر حلقوں، عدلیہ، اور عوام الناس کو نگل رہا ہے۔ کبھی نور عالم، ندیم افضل چن، لوگوں کی عدم برداشت کا شکار ہوتے ہیں تو کبھی مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ کا تقدس پامال کیا جاتا ہے۔
حالیہ انٹرویو میں خان صاحب ایک اور بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ انھیں اس سازش کا جولائی 2021ء میں ہی پتا چل گیا تھا۔ اسی بنیاد پر وہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض کو ان کے منصب سے ہٹانا نہیں چاہتے تھے۔
اس سے کئی پیغامات واضح ہیں کہ خان صاحب نے امریکی سازش کا جو بیانیہ بنایا تھا وہ غلط ہے۔ اگر امریکہ اور مقتدر حلقے اس سب کا حصہ تھے تو انھوں اتنی دیر کیسے لگ گئی اس سازش کو عملی جامہ پہنانے میں۔ دوسرا مجھ جیسے ناقص العلم شخص کو یہ معلوم تھا کہ آئی ایس آئی ملک کی آنکھیں اور کان ہیں، خان صاحب نے واضح تشریح کی ہے کہ یہ حکومت وقت کی آنکھ اور کان ہوتی ہیں، اس لئے ریاست کو اب حقیقی طور پر اپنی فکر کرنی چاہیے۔ تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر فیض حمید صاحب رہ جاتے تو خان صاحب کا بال بھی بیکا نہیں ہونا تھا۔
سہیل وڑائچ کا وہ خوبصورت جملہ نہیں بھولتا جو انھوں نے 19 اگست 2018ء کو فرمایا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی شخص اس مسند سے عزت سے نہیں گیا۔ لیکن اس دفعہ جانے والا ملک کے تمام بڑوں کی عزت بھی تار تار کر گیا ہے۔ امید ہے اس کے بعد شاید اسلامی جمہوریہ پاکستان حقیقی معنوں میں اسلامی وجمہوری ہو جائے جس کے امکانات نہایت مخدوش ہیں۔
خان صاحب البتہ الیکشن کے لئے اپنا بیانیہ بنا چکے ہیں جس کی بنیاد پر وہ سیاسی میدان میں اتریں گے۔ اس بیانیہ میں حسب ذائقہ وترکیب مذہب اور قومیت کا آمیزہ نہایت خوبصورتی سے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بیانیہ دن رات ناصرف مقبول ہو رہا ہے بلکہ اس چورن کو ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا ہے۔
نیز خان صاحب نے خود مختار ریاست کے قیام کا ایک عجیب وغریب خواب دکھایا ہے، جو دیوانے کا خواب ہے، کیونکہ یہاں طاقت کا سرچشمہ عوام الناس تو ہیں نہیں یہاں طاقت کا سرچشمہ تو مقتدر ادارہ ہے۔ ان سے طاقت حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ آپ دیکھیں اگر وہ فیصلہ کر لیں کہ آپ کو گدی سے ہٹانا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کی گدی نہیں بچا سکتی، یہاں تک کے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد بھی کامیاب ہو جاتی ہے۔
خان صاحب یہ بات بہتر طریقہ سے جانتے ہیں کہ وہ مقتدر حلقوں کے کندھے کا سہارا لے کر اقتدار میں آئے اور گدی نشین ہوئے تھے۔ انھوں نے کندھا ہٹایا تو گدی بھی ان کے ہاتھ سے نکل گئی کیونکہ اب وہ غیر جانبدار ہو گئے ہیں۔ خان صاحب کو اصل دکھ عوام الناس یا ان کی حالت زار کا نہیں، ان کو دکھ یہ ہے کہ مجھے کیوں ہٹایا؟
آپ دنیا کی حالیہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، عسکری ریاستیں خود مختار نہیں ہو سکتی ہیں، اور خاص طور پر وہ جن کی حکمت عملی ایک امریکی صدر کی فون کال کا وزن اٹھانے سے قاصر ہو۔ ملک معاشی لحاظ سے مضبوط ہوں تو دفاعی لحاظ سے مضبوط ہوتے ہیں۔ معاشی لحاظ سے ہمارے سیاستدانوں نے کبھی ملک میں میثاق معیشت کی بات نہیں کی نہ ہی سوچا ہے کہ اس کا کوئی حل نکلنا چاہیے۔
سب آتے ہیں، اپنا اپنا ڈنگ ٹپاتے ہیں، وہی گنے چنے وزیر خزانہ ہیں جو کبھی مشرف کے ساتھ تو کبھی زرداری صاحب کے ساتھ تو کبھی خان صاحب کے ساتھ تھے۔ بنیادی طور پر جن اصلاحات کی نظام کو ضرورت ہے، ان سے ہماری تمام سیاسی جماعتیں قاصر ہیں۔ دلی طور پر ان سب کو معلوم بھی ہے کہ مسائل کیا ہیں مگر سنجیدگی سے حل کے لئے کوئی بھی تیار نہیں۔ مثال کے طور پر جب مسلم لیگ ن کی حکومت سٹیل مل، پی آئی اے و دیگر اداروں کی نجکاری کرنا چاہ رہی تھی تو ہمارے ارسطو معیشت دان جناب اسد عمر نے فرمایا تھا کہ ان اداروں کی نجکاری کی ضرورت نہیں، ہم انھیں بہتر طریقہ سے چلا کر دکھائیں گے۔ وہ سفید ہاتھی اب بھی اسی طرح کھڑے ہیں اور ہم سب ان کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔
خان صاحب کو چاہیے کہ وہ اب اپنا دل گردہ بڑا کر لیں۔ حکومت سے انسان نکلتا ہی دوبارہ آنے کے لئے ہے، وہ تو خوش نصیب ہیں کہ ان کی کارکردگی کی کوئی بات ہی نہیں ہو رہی، اگر اس پر بات ہو جائے تو خان صاحب شاید اپنی ضمانت اگلے الیکشن میں ضبط کروا لیں۔
اب بدعنوانی کے کیس بھی بنیں گے۔ توشہ خانہ، عثمان بزدار، فرحت شہزادی عرف فرح خان کے بھی قصے کہانیاں سامنے آئیں گے۔ یہ سب اب چلتا رہے گا، لیکن ایک مفت کا مشورہ ہم بھی دینا چاہیں گے کہ ن لیگ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ دے کر نکلی تھی تو خان صاحب ان کا مذاق اڑاتے تھے، اب وہ خود اسی بیانیہ کا ٹوکرا سر پر اٹھائے گلی گلی، شہر شہر ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔
ن لیگ کا اختتام بھی گیٹ نمبر چار (4) پر ہوا ہے، آپ کا بھی انجام وہیں ہوگا۔ اس لئے فسطائیت وانقلاب کی آگ کو اتنی ہی ہوا دیں جس کی تپش آپ برداشت کر سکیں، ورنہ اس ملک میں وزیراعظم تحتہ دار پر بھی جھولے ہیں، نااہل بھی ہوئے ہیں اور جلا وطن بھی۔ آپ یا آپ کی جماعت ان تینوں میں سے کسی کے بھی قابل نہیں ہیں۔ کیونکہ اول تو آپ جماعت ہیں نہیں، دوم سیاسی تربیت کا شدید فقدان ہے۔