'خونی' لانگ مارچ کے اعلانات، اور 'گھر سے نہیں نکلنے دوں گا' کی دھمکی

06:51 PM, 7 May, 2022

علی وارثی
رانا ثنااللہ پاکستان کے ان سیاستدانوں میں سے ہیں جن پر ماضی میں میڈیا پر بھی بہت کچھ کہا جا چکا ہے اور مخالف سیاسی جماعتوں کے علاوہ ان کی اپنی جماعت کے دیگر لیڈران بھی طرح طرح کے الزام لگاتے رہے ہیں۔ 2008 میں مسلم لیگ ن کی لیڈرشپ کئی سال کی جلاوطنی بھگت کر واپس آئی اور دوبارہ سے پنجاب میں برسرِ اقتدار ہوئی تو شہباز شریف نے رانا ثنااللہ کو وزیرِ قانون بنایا۔ انہوں نے اس حیثیت سے مبینہ طور پر پنجاب میں ان کو میسر تمام تر سرکاری مشینری کو استعمال کرتے ہوئے مسلم لیگ ق میں سے ایک فارورڈ بلاک بنایا۔ اور ایسا فارورڈ بلاک بنایا کہ آدھی سے زیادہ پارلیمانی پارٹی توڑ کر پنجاب کے ایوان میں ان کی لیڈرشپ ہی تبدیل کر دی اور چودھری خاندان کو ان کی اپنی جماعت میں ہی غیر مؤثر کر کے رکھ دیا۔

اسی دوران ان کی مولانا لدھیانوی اور دیگر مذہبی انتہا پسند گروہوں کے لیڈران کے ساتھ تصاویر کا بڑا چرچا ہوا۔ دہشتگردی عروج پر تھی۔ ملک میں اہلِ تشیع جلوسوں پر حملے معمول بن چکے تھے۔ رانا ثنااللہ کے خلاف ان تصاویر کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا اور پراپیگنڈا کیا گیا کہ وہ ان جماعتوں کے سرپرست ہیں۔ رانا ثنا کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک ضمنی الیکشن کے سلسلے میں اس جماعت کے لوگوں کے ساتھ ملے تھے اور دیگر جماعتیں بھی اپنے اپنے علاقوں میں ان کی سیاسی حمایت حاصل کرتی تھیں۔ اب حقیقت کیا ہے یہ تو خدا ہی جانتا ہے لیکن ان تصاویر نے ان کی دہشت میں اضافہ ضرور کیا۔ بعد ازاں یہی انتہا پسند گروپ ان کے خلاف بھی ہوئے جب ان کے خلاف پنجاب میں آپریشن شروع ہوئے اور رانا ثنا کے مخالفین کو سپورٹ کیا۔ تاہم، رانا ثنااللہ اپنے حلقے میں ان کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔

2018 کے بعد مسلم لیگ ن اپوزیشن میں آئی تو رانا ثنااللہ کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ وہ اپنی جماعت پر نظر رکھیں۔ ان کی پارٹی کے اندر کی انٹیلیجنس پر نواز شریف کو اتنا بھروسہ تھا کہ نواز شریف کے تمام فیصلوں میں اس انٹیلیجنس کو کلیدی حیثیت حاصل رہتی۔ 2021 کے آخر میں پاکستان تحریک انصاف کو توڑنے کا فیصلہ کیا گیا تو بھی رانا ثنا کا کردار انتہائی اہم تھا۔ ان کی دبنگ شخصیت جو کہ یقیناً بہت حوالوں سے متنازع بھی ہے، اب ایک بار پھر موجودہ حکومت کا مرکزی کردار بن چکی ہے کہ جب ان کے پاس ملک کی وزارتِ داخلہ ہے اور سابق وزیر اعظم عمران خان ایک مرتبہ پھر مارچ لے کر اسلام آباد کی طرف قدم بڑھانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

اس حوالے سے متعدد بیانات سامنے آتے رہے ہیں جن میں پرتشدد کارروائیوں کی بات بھی ہوئی ہے۔ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے بارہا اعلان کیا کہ لانگ مارچ خونی ہوگا۔ وہ ماضی میں بھی جلاؤ گھیراؤ کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ فواد چودھری، شیریں مزاری، اسد عمر سمیت پی ٹی آئی کے دیگر رہنما بھی خونی انقلاب، خانہ جنگی وغیرہ کی باتیں بار بار کر چکے ہیں۔ ایسے موقع پر رانا ثنااللہ کا ایک ایسا بیان سامنے آیا ہے جو بہت سے لوگوں کے لئے باعثِ تشویش ہونا چاہیے۔

انہوں نے کیا کہا، سنیے:

https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1522927162088882176

رانا ثنااللہ کے اس بیان کو جہاں ایک دھمکی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، وہیں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ریاست کے اندر چند عناصر بار بار لوگوں کو تشدد پر اکسا رہے ہوں، کشت و خون کی باتیں کر رہے ہوں، آگ لگانے کے اعلانات کر رہے ہوں، مخالفین پر حملوں کی ناصرف ستائش کر رہے ہوں بلکہ کچھ رپورٹس کے مطابق ان کی منصوبہ بندی میں بھی شامل ہوں تو ایسے میں حکومت کیا کر سکتی ہے؟ رانا ثنااللہ کو اپنے الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے لیکن دوسری طرف بھی یہی مشورہ ہوگا کہ ملک کو جلاؤ گھیراؤ، قتل و غارت اور خون ریزی کی طرف لے جانے سے گریز کیا جائے، ان الفاظ کو اپنے مباحث سے دور رکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ سیاسی معاملات کو سیاست تک ہی محدود رکھا جائے۔ غداری، توہینِ مذہب کے نعروں اور FIR سے باز رہا جائے اور جس حد تک ممکن ہو ملک کی امن و سلامتی کے لئے کوشش کی جائے۔ پاکستان اور خصوصاً اس کی معیشت مزید کسی تصادم کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
مزیدخبریں