لیکن تحریک انصاف کی جانب سے یہ شور مچایا گیا کہ پاکستان کے معاشی بحران سے نمٹنے کے تناظر میں یہ دورہ انتہائی اہم ہے کیونکہ چین سے امداد میں پیسے ملنے کے بعد ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ عمران خان حب بیجنگ پہنچے تو حیران کن طور پر ان کے استقبال کیلئے کسی سینئیر حکومتی رہنما کے بجائے چین کے وزیر ٹرانسپورٹ کو بھیجا گیا۔ سفارتکاری کی دنیا میں اسے پوسچرنگ (posturing) کہا جاتا ہے جس کے ذریعے آپ یہ پیغام دے دیتے ہیں کہ جس ملک میں آپ مذاکرات کیلئے آئے ہیں وہ آپ سے اپر ہینڈ رکھتا ہے اور مذاکرات کے عمل کو حسب منشا اور حسب رضا اپنی سمت میں کرنا چاہتا ہے۔ عمران خان اور ان کے وزرا نے سی پیک کے بارے میں جس قدر متنازعہ بیانات دیے تھے ان کے بعد چین کی حکومت کے تحریک انصاف کی حکومت سے متعلق تحفظات ایک قدرتی عمل تھا۔
پہلے عمران خان چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری کو محض اس لئے ہدف تنقید بناتے رہے کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت کو کرپٹ ثابت کر سکیں پھر ان کے مشیر برائے تجارتی امور رزاق داؤد نے سی پیک کے ازسر نو جائزے کا بیان جاری کر دیا۔ سعودی عرب سے امداد حاصل کرنے کیلئے عجلت میں چین کی مشاورت یا بغیر کسی ایسی تقریب کے جس میں چین، پاکستان اور سعودی عرب کے نمائندے شامل ہوتے، سعودی عرب کو بھی سی پیک کے منصوبے کا پارٹنر بنا دیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ چین دورے سے چند روز قبل ہی وزیر ریلوے شیخ رشید نے یہ الزام بھی عائد کر دیا کہ ان سے پہلے والے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے چین سے ریلوے انجنوں کی خریداری میں کرپشن کی۔
جب آپ سیاسی مخالفین کو کرپٹ ثابت کرنے کے لئے الزامات لگاتے ہوئے چین جیسے دوست ملک کا نام بھی شامل کرتے ہیں تو نتیجتاً یہ بیجنگ میں تحریک انصاف کی حکومت کیلئے گرمجوشی کی راہیں ہموار نہیں کرتا ہے۔ خیر چین میں صدر زائی اور ان کے اعلیٰ سطح کے حکومتی افراد کی زیادہ توجہ شنگھائی کانفرنس پر مرکوز رہی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چین نے پاکستان یا عمران خان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا بلکہ مصروفیت کے باعث چینی صدر اس طرح عمران خان کیلئے وقت نہ نکال پائے جیسا کہ وہ پچھلی پاکستانی حکومتوں کے سربراہان کیلئے نکالتے تھے۔
دراصل تحریک انصاف اور عمران خان نے چین کے دورے سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں اور ان توقعات نے پاکستان میں موجود انویسٹرز اور کاروباری طبقے کی توقعات بھی بڑھا دیں۔ عوام سمیت سب کا خیال تھا کہ چونکہ عمران خان اور ان کی کابینہ علی الاعلان یہ کہتے رہے ہیں کہ چین سے بھی سعودی طرز کی امداد مل جائے گی اس لئے ہمیں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF) کے پاس نہیں جانا پڑے گا۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ چین نے کسی بھی وقت اور کسی بھی سطح پر تحریک انصاف کو فوری امداد یا قرضے کی یقین دہانی نہیں کروائی تھی۔ ویسے بھی چین قرضہ یا تو ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کی صورت میں دیتا ہے یا پھر کڑی شرائط پر۔ چنانچہ عمران خان اور ان کی حکومت نے چین کی پالیسی کو سمجھنے میں ناکامی کا ثبوت دیا۔
دوسری جانب چین نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ اعلامیہ میں یہ بات کہی کہ چین پاکستان کی مدد ضرور کرے گا لیکن اس کے لئے مزید مصاکرات اور گفت و شنید کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمران خان اور ان کی کابینہ ایک بار پھر بنا کسی تیاری اور مستقبل کے ٹھوس معاشی وژن کی پالیسی کے بغیر چینی حکام سے مذاکرات کرنے گٙئے تھے۔ اس سے قبل آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران بھی پاکستان کی جانب سے مناسب تیاری نہ ہونے پر عالمی مالیاتی ادارے کی سربراہ نے قرضے کی فراہمی کو مزید مذاکرات کے ساتھ مشروط کر دیا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان اب بھی اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں کہ محض فرضی کرپشن کی داستانیں اور ایک افسانوی لوٹی ہوئی رقم کی ملک واپسی سے خزانہ بھر لینے کی باتیں اور دعوے معاشی پالیسی نہیں ہوا کرتی اور نہ ہی بین الاقوامی دنیا میں ان نعروں کی کوئی اہمیت ہوا کرتی ہے۔ یہ نعرے اپنے سپورٹرز کو خوش کرنے کیلئے تو لگائے جاتے ہیں لیکن ان کا ایک حقیقت پسندانہ معاشی پالیسی ترتیب دینے میں کوئی عمل دخل نہیں ہوا کرتا۔
بدقسمتی سے حکومت نے عاطف میاں جیسے قابل معیثت دان کو عقیدے کی بنا پر معاشی مشیر کے عہدے سے برطرف کر کے ڈاکٹر فرخ سلیم جیسے شخص کو معاشی مشیر مقرر کر لیا۔ ڈاکٹر فرخ سلیم کا سارا زور اور توانائی کرپشن کی داستانیں گھڑنے اور پچاس ملین گھروں کی سکیم کو درست اور قابل عمل قرار دینے میں صرف ہوتا ہے۔ اگر فرخ سلیم صاحب اس کا آدھا وقت بھی ٹھوس اور حقیقت پسندانہ معاشی پالیسی کے مرتب کرنے میں صرف کرتے تو ہمیں بیجنگ میں بھی مکمل تیاری نہ ہونے کی وجہ سے خفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اسی طرح اگر عمران خان اپنے سیاسی فریقین کو نیچا دکھانے کیلئے سی پیک سے متعلق دشنام طرازی نہ کرتے تو شاید انہیں چینی حکام سے اشاروں کنایوں میں آئندہ احتیاط برتنے کی درخواست نہ کی جاتی۔
عمران خان نے چین میں سرمایہ کاروں سے بھی خطاب کیا اور بدقسمتی سے اس خطاب میں بھی وطن عزیز میں کرپشن اور اداروں کے کمزور ہونے کی دہائیاں دیں۔ دنیا کا کوئی سربراہ مملکت کبھی بھی اپنے منہ سے کسی سرمایہ کاری کانفرنس میں اپنے ملک کی برائیاں اور محض اپنے منہ اپنی تعریفیں نہیں کرتا۔ لیکن یہ اعزاز بھی خان صاحب کو حاصل ہے کہ نرگسیت پسندی کے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچنے کے بعد شاید وہ اپنی ذات کے سوا کچھ اور بھی دیکھنے سننے اور سمجھنے کی صلاحیتوں سے قاصر ہیں۔ چین نے مشترکہ اعلامیہ میں سی پیک کے رواں منصوبوں کو بھی جاری رکھنے کی بات کی اور اس اعلامیے میں یہ بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ "موجودہ سی پیک کے تمام منصوبے جاری و ساری رہیں گے اور ان کی تعداد کم نہیں ہو گی بلکہ ضرورت پڑنے پر اس تعداد میں اضافہ ہو گا"۔ یعنی دوسرے لفظوں میں عمران خان اور ان کی حکومت جو بار بار سی پیک کا از سر نو جائزہ لے کر اس میں تبدیلیوں کی بات کر رہے تھے اب وہ دعوے کسی بھی طرح نافذالعمل نہیں رہیں گے۔
بیجنگ کے دورے سے خالی ہاتھ واپسی پر خان صاحب اور ان کے پرستاروں کو شاید اس حقیقت سے روشناسی ضرور ہو جائے گی کہ دنیا میں سیاسی، معاشی اور خارجی معاملات پر اثر انداز ہونے کیلئے محض "سٹار ڈم" یا اچھی شکل ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اس کیلئے ان معاملات پر مکمل گرفت اور عبور کا حاصل ہونا بیحد ضروری ہے۔ اس دورے سے ایک اور سبق جو عمران خان اور تحریک انصاف کو سیکھنے کو ملے گا وہ یہ ہے کہ کبھی بھی کسی غیر ملکی دورے پر جانے سے پہلے عوام کو غیر حقیقی خواب مت دکھائے جائیں اور سیاسی مخالفین کو نیچا دکھاتے وقت کم سے کم دوست ممالک کے منصوبوں پر محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے تنقید نہ کریں۔
بیجنگ کے تعلقات اسلام آباد یعنی مملکت پاکستان سے ہیں اس لئے انہوں نے بہر حال خان صاحب کو مستقبل میں امداد دینے کا وعدہ کر کے ان کی فیس سیونگ تو کر دی لیکن حقیقتاً عمران خان بیجنگ سے خالی ہاتھ لوٹے ہیں اور اب معاشی بحران سے نمٹنے کا واحد راستہ صرف آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکج ہے۔ اسی لئے سیانے کہتے ہیں کہ بڑے بڑے بول بولنے اور دعوے کرنے والے محض بولتے ہی رہ جاتے ہیں، اصل کام کرنے والا شخص مکمل خاموشی سے کام کرتا ہے۔