جی جناب! بیس سال کی جدوجہد اور نشیب و فراز سے گزر کر یہ وقت آیا ہے کہ ریاست پاکستان میں حکومت کی جائے۔ اختیار والی سرکار کا انتخاب ہوا اور اس کے بعد ماتحت لوگوں کے چناؤ کا وقت آیا، عالی شان بس ادھر سے ہی خط کا آغاز کرتا ہوں، مختصراً لکھنے کی کوشش کروں گا۔
گزارش عرض ہے کہ بطور نوجوان آپ کی تقریر سن لیتے ہیں کہ ستر سال بعد قائد اعظم کا پاکستان کا خواب پورا ہو رہا ہے۔ محترم جدید دور کے جدید تقاضے ہیں، ماضی میں سکیورٹی کو ریاست کا اہم ستون قرار دیا گیا لیکن اس میں ایک نیا فلسفہ شامل ہو گیا، جس کو معیشت کا نام دیا جاتا ہے۔
حال بتانے والے کہتے ہیں اس کے لیے اسد عمر کا چناؤ کیا گیا تھا جن کو حکمران جماعت کا دماغ کہا جاتا ہے۔ لیکن، اس میں سوجن کے باعث غیر سرکار سے لوگوں کو برآمد کیا گیا۔ شیخ صاحب جو پرانی سلطنت کے سلطان کے مشیر خزانہ تھے، ہمیں ان کی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں لیکن ان کے تعلقات پر رشک آتا ہے۔ ساتھ ساتھ سرکار کے خزانے کی حفاظت مصر سے آئے ہوئے باقر صاحب کر رہے ہیں۔ گویا ملک میں آبادی بڑھنے کے باوجود کوئی کام کا شخص نہیں ہے۔
آگے بڑھیں، خارجہ کا محاذ ملتان کے شاہ کے پاس ہے اور دفاع کا انتظام نوشہرہ کے خٹک کے حوالے ہے۔ دونوں کا رتبہ بلند اور طاقت ور لیکن جناب سلطنت کے باقی وزیروں کا برا حال ہے۔ مواصلات کے 2 سو ارب ڈالر والے وزیر ہو یا کامیاب نوجوان کے مشیر، ریلوے کے پنڈی شیخ ہو یا جان اللہ کو دینے والے وزیر، سرکار ان کی خبر گیری کا وقت آ پہنچا ہے۔
عالی مقام! وقت کا دھارا تیزی سے بدل رہا ہے، مولانا سلطنت کو فتح کرنے پہنچ چکے ہیں۔ گویا ابھی وقت نہیں ہوا کہ آزادی کا اعلان کیا جائے کیونکہ ریاست کے ستون کا ساتھ ابھی ساتھ ہے۔ کچھ کرنے کا فیصلہ کر لیں، ماضی کے حکمران اس انتظار میں ہے کہ کب شفقت کا ہاتھ اٹھے اور وہ واپس اقتدار کی راہداریوں سے گزریں۔
جناب عالی! احتساب کا نعرہ کب ختم ہونے کو ہے، معاملات ٹھیک ہو رہے ہے، مستقبل کے منظر نامے کی تیاری جاری ہے۔ واقفان حال تو بتاتے ہیں بہت کچھ ہونے والا ہے۔
سرکار اب میدان میں گھوڑے دوڑانے کا وقت آ گیا ہے، سڑک ہموار ہے لیکن اقتدار کانٹوں کا بستر ہے نا کہ پھولوں کا سیج۔
آخر میں اس سے پہلے بھی جو سلطنت کے حکمران رہے ہیں، نامعلوم وجوہات کے باعث جیل کی ہوا کھاتے ہیں۔ یہاں اللہ خیر کرے!