سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے خط میں لکھا کہ وزیر داخلہ بار بارجان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ شہباز شریف ، رانا ثنا اللہ اور ایک اعلی افسر نے میرے قتل کا منصوبہ بنایا اور گزشتہ ہفتے مارچ کے دوران اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی لیکن اللہ رب العزت نے مجھے بچالیا اور میرے قتل کی کوشش ناکام رہی۔
صدرِ مملکت کو لکھے گئے خط میں پی ٹی آئی چیئرمین صدر عارف علوی سے درخواست کی کہ وہ بطور سربراہِ ریاست اور آرٹیکل 243(2) کےتحت افواجِ پاکستان کے سپریم کمانڈر کے طور پر ذمہ داروں کے تعین کیلئے تحقیقات اور محاسبے کا اہتمام کریں۔ قومی سلامتی سے جڑے ان معاملات کا فوری نوٹس لیں۔
عمران خان نے مزید کہا کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت کوسازش کر کے گرایا گیا ، قوم میری حقیقی آزادی کی پکار پر کھڑی ہوچکی ہے، ہمیں جھوٹے الزامات، حراسگی، بلاجواز گرفتاریوں حتیٰ کہ زیر حراست تشدد جیسے ہتھکنڈوں کا سامنا ہے۔
انہوں نے صدر مملکت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ دو اہم ترین سوالات ہیں کہ کسی ایجنسی کا سربراہ پریس کانفرنس سے کیسے مخاطب ہو سکتا ہے اور دو اعلیٰ افسران کیسے سیاسی جماعت کے سربراہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
انہوں نے خط میں مزید کہا کہ آئی ایس پی آر کے حدودِ کار کو دفاعی و عسکری معاملات پر معلومات کے اجراء تک محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ افواجِ پاکستان کے سپریم کمانڈر کے طور آپ سے التماس ہے کہ آپ آئی ایس پی آر کی حدودِ کار کے تعین کے عمل کا آغاز کریں۔
دوسری جانب وفاقی حکومت کی جانب سے چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب کو خط لکھ دیا، خط عمران خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر تاحال درج نہ ہونے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ قیاس آرائیوں کی بجائے واقعے کے حقائق پر مبنی ایف آئی آر درج کی جائے۔
وفاق نے صوبائی حکومت سے ہائی پروفائل کیس سے نمٹنے اور سکیورٹی معاملات پر بھی شدید تحفظات کا اظہارکیا ہے۔