پاکستان تحریک انصاف میں بھی ان کی شمولیت اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ہی ہوئی۔ ان رہنماؤں نے کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کی سیاست نہیں کی۔ یہ بات سیاست کے طالب علموں کے لئے ہضم کرنا مشکل ہے کہ یہ سب افراد اچانک انٹی اسٹیبلشمنٹ کیسے ہو گئے؟
پاکستان تحریک انصاف کی بظاہر پنجاب میں حکومت ہے مگر ان کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی ہیں جو فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ یہ تو جنرل مشرف کو تاحیات صدر بنوانے پر راضی تھے۔ ان کے کزن کم بھائی چوہدری شجاعت حسین مشرف دور میں وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ مشرف دور میں چوہدری برادران کا پاکستان کی سیاست میں 'اوپر اللہ باری، نیچے مالی پٹواری' والا حساب تھا۔ مشرف کے بعد پاکستان کی سیاست اور انتظامیہ کا سارا کنٹرول چوہدری برادران کے پاس تھا۔ یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ پرویز الٰہی اب بھی عسکری حلقوں کے کافی قریب ہیں۔
آج عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ ان کی عدم موجودگی میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور پرویز خٹک لانگ مارچ کو لیڈ کریں گے۔ شاہ محمود قریشی تو تحریک انصاف کے چہیتے صحافی ہارون الرشید کے مطابق 'غدار ابنِ غدار' ہیں اور ان کا وفاداریاں تبدیل کرنے کا 200 سالہ خاندانی تجربہ ہے۔
شاہ محمود قریشی خود بھی پہلے ضیاالحق کے ساتھ تھے، پھر نواز شریف کے ساتھ رہے، 1993 میں پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔ 2008 میں انہوں نے وزیر اعظم بننے کی بہت کوشش کی مگر پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ان کو وزیر اعظم بنانے کا اس لئے رسک نہ لیا کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے خدشات اس وقت درست ثابت ہوئے جب 2011 میں شاہ محمود نے ریمنڈ ڈیوس کی آڑ میں اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔بعد ازاں جب اسٹیبلشمنٹ نے تحریک انصاف میں لوٹوں کی باقاعدہ بھرتی کا عمل شروع کیا تو شا محمود پیش پیش تھے اور تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر کے اسٹیبلشمنٹ کی تجدید بیعت کی سعادت حاصل کی۔
اسد عمر تو ہیں ہی جنرل عمر کے بیٹے جن کو حمود الرحمٰن کمیشن نے سانحۂ مشرقی پاکستان کے ذمہ داران میں سے ایک قرار دیا تھا۔ عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جتنی بھی خفیہ ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں یا ہو رہی ہیں اسد عمر ان کا لازمی جزو سمجھے جاتے ہیں۔ صدرعارف علوی کی وساطت سے عمران خان کی آرمی چیف کے ساتھ ملاقات میں بھی اسد عمر پیش پیش تھے۔کچھ معتبر صحافیوں کے مطابق تو جنرل فیض حمید کے ساتھ خفیہ ملاقتوں میں بھی اسد عمر صاحب اپنے 'انٹی اسٹیبلشمنٹ' ہونے کا جوہر دکھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ قیاس آرائیاں تو یہاں تک ہیں کہ اسٹیبیلشمنٹ اسد عمر کو عمران خان کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے۔ عمر گوہر ایوب اور اسد عمر کو تحریک انصاف میں دیکھ کر انہیں بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ جب گھر کے بچے قابل ہو جائیں تو باہر دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔
اسی طرح تحریک انصاف میں شاہ محمود اور اسد عمر کے بعد تیسری بڑی معتبر شخصیت پرویز خٹک ہیں۔ پرویز خٹک تحریک انصاف میں آنے سے پہلے پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی (شیرپاؤ گروپ) میں رہ چکے ہیں۔ پرویز خٹک کو تحریک انصاف کی 2018 والی حکومت میں اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر ہی وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ جب کبھی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان حالات کشیدہ ہوتے ہیں تو پرویز خٹک ہمیشہ دونوں فریقین کے درمیان 'مٹی پاؤ' والا کردار ادا کرتے ہیں۔ عمران خان کی اسٹیبیلشمنٹ کے ساتھ ہونے والی خاص اور خفیہ ملاقاتوں کا پرویز خٹک لازمی جزو رہے ہیں۔ پرویز خٹک تحریک انصاف کے وہ رہنما تھے جو تحریک عدم اعتماد کے وقت عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور آخری وقت تک اسٹیبلشمنٹ سے مایوس نہیں ہوئے تھے۔
قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اب شیخ رشید بھی خود کو انٹی اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔عمران خان کی بے بسی اور نااہلی کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ کبھی چپڑاسی بھی نہ رکھے جانے کے قابل شیخ رشید کو وفاقی وزیر داخلہ بنانا پڑا مگر کس کے کہنے پر؟ عمران خان کے دور کے دونوں وزرائے داخلہ اعجاز شاہ اور پھر شیخ رشید اسٹیبلشمنٹ کے خاص لوگ تھے۔
مسلم لیگ (ن) میں اسٹیبیلشمنٹ کا حامی گروپ اتنا طاقتور ہے کہ نواز شریف کی بھی اس کے آگے ایک نہیں چلتی۔ شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کا آدمی سمجھا جاتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی دیرینہ خواہش تھی کہ نواز شریف کو ہٹا کر شہباز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی صدارت سونپی جائے اور نواز شریف کے خطرے سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ پرویز مشرف کے دور میں بھی شہباز شریف پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خفیہ رابطوں کے الزامات سامنے آتے رہے۔ کلثوم نواز نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ شہباز شریف کو نواز شریف کو مشورے دینے کی بجائے اپنے دوست پرویز مشرف کو مشورے دینے چاہئیں۔13 جولائی 2018 کو جب نواز شریف نے مریم نواز کے ساتھ لندن سے ملک واپس آنے کا اعلان کیا تو مسلم لیگ (ن) کے بہت سارے رہنما نواز شریف کو لینے ائرپورٹ جانے کو تیار نہیں تھے۔ شہباز شریف جو ن لیگ جلوس کو لیڈ کر رہے تھے وہ اپنے قافلے کو لاہور کی سڑکوں پر گھماتے رہے مگر ائرپورٹ نہ پہنچے۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کا حتمی فیصلی تب ہوا جب اسٹیبلشمنٹ اور شہباز شریف کے مابین نئی حکومت کا فارمولا طے پایا۔
پنجاب کی دونوں بڑی پارٹیوں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے اندر اسٹیبلشمنٹ کا حامی دھڑا موجود ہے جو ان کی پالیسیوں پر ہمیشہ اثر انداز ہوتا ہے۔ ان ڈبل ایجنٹس کے ہوتے ہوئے دونوں پارٹیاں انٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا دعویٰ تو کر سکتی ہیں پر اپنے انقلابی بیانیے پر عملدرآمد نہیں کر سکتیں۔