پاکستان نے نمایاں بہتری دکھائی ہے: ایف اے ٹی ایف 

04:16 PM, 7 Oct, 2019

نیا دور



 فنانشل ٹاسک فورس یعنی ایف اے ٹی ایف کی ذیلی تنظیم ایشیا پیسفک گروپ (اے پی جی) کی رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں پاکستان کی جانب سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لیا گیا ہے۔


یہ رپورٹ اکتوبر 2018 تک کی کارکردگی کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے، اس لیے اس میں بہت سے ایسے اقدامات کا ذکر نہیں جو پاکستان نے گذشتہ ایک سال میں کیے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کے نظام کو نمایاں طور پر بہتر بنایا ہے۔





یہ رپورٹ آئندہ ہفتے پیرس میں ایف اے ٹی ایف کے اہم اجلاس سے ایک ہفتہ قبل جاری ہوئی ہے۔  تیرہ سے اٹھارہ اکتوبر تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں  طے ہوگا کہ پاکستان بدستور ایف اے ٹی ایف کی "گِرے لسٹ" میں رہے گا یا   "بلیک لسٹ" کردیا جائے گا۔

پاکستان کی معاشی صورتحال پر ملک کے اندر خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بات بلیک لِسٹ ہونے کی طرف جاتی ہے تو یہ ملک کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ حکومتی وزراء نے بارہا کہا ہے کہ وہ پُر امید ہیں کہ پاکستان گِرے لسٹ سے نکل آئے گا۔

حکومت کو امید ہے کہ اگر پاکستان افغانستان میں امریکا کی مشکلیں آسان کرنے میں اس کا ساتھ دیتا رہا اور  بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پُرتشدد کارروائیوں کی حوصلہ شکنی کے عزم پر کاربند رہا تو وہ اس دباؤ سے نکل آئے گا۔

اطلاعات کے مطابق ایشیا پیسفک گروپ کی جائزہ رپورٹ اکتوبر  دوہزار اٹھارہ تک کی کارکردگی کی بنیاد پر تیار کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی چھبیس تجاویز پر جزوی طور پر جبکہ نو تجاویز پر بڑی حد تک عمل کیا۔



رپورٹ میں پاکستان کی طرف سے  منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق قوانین سخت کرنے، ملزمان کو قانون کی گرفت میں لانے اور مسلح تنظیموں کے اکاؤنٹ اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے جیسے اقدامات کو سراہا گیا۔

تاہم تنظیم کے مطابق پاکستان کے ریاستی اداروں کو مزید اقدامات لینے کی ضرورت ہے تاکہ  منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے۔ تنظیم نے کہا کہ پاکستان کے مرکزی بینک کو ان مالیاتی جرائم کے خطرات کا مکمل احساس نہیں، لیکن وہ بہتری لانے کی کوشش کررہا ہے۔

اس سے قبل  اگست میں اکتالیس رکن ممالک پر مبنی اے پی جی نے تکنیکی خامیوں کی بنا پر پاکستان کی کارکردگی پر اپنے تحفظات ظاہر کیے تھے۔ پاکستان اگلے سال فروری  تک ہر تین ماہ میں اپنی کارکردگی رپورٹ اے پی جی کو دینے کا پابند ہے۔

پاکستان میں ماہرین کی جانب سے اس معاملے پر مختلف قسم کی آرا کا اظہار تو کیا گیا ہے تاہم وہ اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ پاکستان نے گزشتہ ایک سال کے دوران بہت کام کیا ہے جو آئندہ ہونے والی ایف اے ٹی ایف اجلاس میں زیر بحث آئے گا اور امکان ہے کہ پاکستان کے لیے 'بُری خبر نہیں آئے گی'۔

برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے اقتصادی امور کے ماہر سہیل احمد کہتے ہیں کہ پہلی مرتبہ عوام کو معلوم ہوا ہے کہ چالیس میں سے 36 پر پاکستان نے پوری طرح یا جزوی طور پر عمل کر لیا ہے۔ اگرچہ حکومت دعویٰ کرتی رہی ہے کہ چار ہی رہ گئے ہیں۔

سہیل احمد کے خیال میں اس رپورٹ کے سامنے آنے سے بے یقینی کی صورتحال میں کمی آئے گی چونکہ اس میں گذشتہ ایک سال کے اقدامات کا ذکر نہیں ہے، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ جن چار تجاویز پر پاکستان نے اکتوبر 2018 تک عملدرآمد نہیں کیا تھا، رواں برس ان پر بھی کام ہوا ہوگا۔ اس لیے آئندہ ہونے والے اجلاس سے مثبت امید رکھی جا سکتی ہے کہ پاکستان بلیک لسٹ نہیں ہوگا'۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان پیرس میں ہونے والی آئندہ میٹنگ میں یہ بتائے گا کہ اس نے گزشتہ چند ماہ میں کیا اہم اقدامات کیے ہیں۔

’ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس حکومت نے خاصے اقدامات کیے، سربراہان کو پکڑا گیا، اکاؤنٹس فریز کیے گئے، پابندیاں لگیں، بڑے بینکوں کو پینلٹی لگائی گئی ہیں، ہمیں لگتا ہے کہ پاکستان کو آئندہ کچھ عرصے کے لیے گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے گا، تاہم بلیک لسٹ ہونے کے امکان اب کم ہیں'۔

ان کے مطابق آئندہ اجلاس میں یہ رپورٹ اور رواں برس ہونے والے تمام اقدامات سامنے رکھے جائیں گے۔



مزیدخبریں