انہوں نے بتایا کہ جب سے انکے خاندان نے طالبان کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیا تب سے اب تک انکو اسکی سزا دی جارہی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ انکی بیٹی گلالئی اسماعیل 16 سال کی عمر سے ہی پختونخواہ کی لڑکیوں کی تعلیم کیلئے سرگرم ہوگئی تھی پھر سوات میں طالبان کی جبری حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتی رہی۔ انکی بیٹی گلالئی اسماعیل نے بچوں کو دہشتگرد نظریات سے دور رکھنے کیلئے یوتھ پیس نیٹ ورک کا پروگرام کا آغاز کیا جس کی وجہ سے اسے 2013 میں کامن ویلتھ ایوارڈ سے نوازا گیا تو عارف علوی (جو اس وقت صدر پاکستان ہیں) نے اسے فخر پاکستان( پرائیڈ آف پاکستان) کا خطاب دیا، پرویز خٹک نے بھی انہیں سرٹیفیکیٹ سے نواز ، آج کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی اسکے کام کی تعریف کی اور پی آئی ڈی نے بھی اسکے اعزاز پر ٹوئیٹ کی۔ 2016 میں شراک ایوارڈ جیتنے پر فرانس میں پاکستانی سفارت خانے میں انکی بیٹی کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں انہیں نوجوانوں کیلئے قانون سازی کرنے کیلئے مختلف کمیٹیوں میں بھی شامل کیا گیا تھا۔ ان سب سے انکی اور انکے کام کی تعریف کی جارہی تھی اور وہ تیزی سے مقبول ہورہی تھی۔ تاہم پشتون نسل کشی کے خلاف وہ پشتون تحفظ موومنٹ کی سرگرمیوں میں شامل ہوگئی اور اس نے وزیرستان میں بچیوں کے ساتھ انٹرویوز کئیے۔ جہاں لڑکیوں نے اسے انٹرویوز دیتے ہوئے بتایا کہ انہیں حراساں کیا جاتا ہے۔ ااس نے اسکی تفصیلی رپورٹ بنائی جسے پیش کرنے کیلئے اسے برطانوی اپوزیشن نے برطانیہ بلایا انہوں نے اس پر مکمل پریزنٹیشن تیار کی۔ برطانیہ سے واپسی پر ائیرپورٹ پر انہیں بتایا گیا کہ انکا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے اور ان پر مقدمہ درج کروایا جا چکا ہے۔ بعد میں بمشکل اسکی ضمانت کروائی گئی۔ تاہم نقیب اللہ محسود کے واقعے کے بعد وہ پی ٹی ایم میں مکمل طور پر سرگرم ہوگئی جس کی سزا اسے ملتی رہی تاہم بین الاقوامی رابطوں کے باعث اسے وہاں سے بہت سپورٹ ملی۔
تاہم فرشتہ قتل کیس میں میری بیٹی نے آواز اٹھائی تو اس پر دہشتگردی، نسلی فسادات اور غداری کے مقدمات بنائے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں بھی اس دوران دو دفعہ گرفتار کیا گیا، انکے لیپ ٹاپ اور ڈرائیور کو بھی لے گئے اور اسے انکی مخبری کرنے کی نوکری کی دعوت بھی دی۔ انہوں نے بتایا کہ گلالئی کے ایک دوست جو کہ لاہور میں صحافی تھا اسے بھی اٹھا کر کئی دنوں تک حراست میں رکھا گیا اور ٹارچر کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ جب انکی بیٹی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون سے ملاقات کی تو اس وقت کچھ افراد نے ہمارے گھر کا گھیراو کیا اور ہم پر ایف آئی اے کے تحت دہشتگردوں کی مالی معاونت کے مقدمہ چلا دیا گیا جس میں انہیں، انکی بیٹی اور اہلیہ کو نامزد کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کیس کو لیکر ہم ہائی کورٹ گئے پھر انسداد دہشتگردی کی عدالت نے بھی کہا کہ اس کیس میں کوئی ثبوت نہیں ہے صرف الزام کی بنیاد پر آپ کسی کو کیسے اٹھا سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کیس پر فیصلہ دیتے ہوئے جج نے ریمارکس دئیے کہ یہ صرف الزامات ہیں جو ثابت نہیں ہوتے۔ انہوں نے بتایا کہ جج نے کیس خارج کرتے ہوئے فیصلے میں لکھا کہ عام انسانوں کو بدنام کیا جارہا ہے، ان اداروں نے بنگلہ دیش، فاٹا اور سوات سے کچھ نہیں سیکھا۔
انہوں نے موقف دیا کہ مقدمہ بنانے والوں نے خود دہشتگردوں کو گاڑیاں فراہم کرنے والوں سے زبردستی بیان لئے کہ آپ بیان دیں کہ فلاں گاڑی گلالئی اسماعیل اور اسکے والد نے لی جو بعد میں دہشگردی کیلئے استعمال ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ کسی نے یہ بھی کہا کہ ہم نے کسی سے اسلحہ خرید کر دہشتگروں کو دیا ہے تاہم 2013 کا واقعہ انہیں 7 سال بعد یاد آیا کیونکہ یہ 2 جولائی کے فیصلے میں ہار ماننے کیلئے تیار نہیں تھے۔ لہذا انہوں نے وہی کیس دوبارہ کھولتے ہوئے دہشتگردی، لا قانونیت اور بغاوت کی مزید دفعات اس کیس میں شامل کر دیں۔
انہوں نے بتایا کہ انکو ایف بی آر سے بھی دھمکیاں دی گئیں کہ انہوں نے ٹیکس گوشوارے جمع نہی۔ن کروائے جبکہ وہ اور انکی اہلیہ کوئی کام نہیں کرتے جبکہ انکو تمام اخراجات کے پیسے انکا بیٹا، بیٹیاں اور بہو امریکہ سے بھیجتے ہیں جو با قاعدہ بنکاری نظام سے وصول کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میرا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا جبکہ اکتوبر 2019 میں انہیں اغواء بھی کر لیا گیا۔ تاہم میڈیا اور امریکی سفارت خانے کی مدد سے مجھے 8 گھنٹے بعدمجھے ایف آئی اے میں پیش کیا گیا۔
اب گلالئی کے بوڑھے ماں باپ پر 2013 میں پشاور چرچ دھماکے اور 2015 پشاور امام بارگاہ دھماکے کی معاونت کا الزام لگا دیا گیا ہے۔ وہ اور انکی اہلیہ تقریباً ہر روز انسداد دہشتگردی کی عدالت میں جاتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ وہ ریاست کے خلاف نہیں بلکہ ریاست میں انسانی آزادیوں کی بات کرتے ہیں۔ وہ اور انکی بیٹی امریکہ، کشمیر ، فلسطین میں ہونے والے مظالم پر بھی بولتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ انکی بیوی ایک سادہ اور گھریلو خاتون ہے اس پر بھی غداری کا مقدمہ درج کر دیا گیا۔۔ عبداللہ مہمند نے ان سے سوال کیا کہ اگر انکا نام ای سی ایل سے نکال لیا جائے تو کیا وہ پاکستان میں رہیں گے، اسکے جواب میں انکا کہنا تھا کہ وہ اس کیس سے بری ہونے کے بعد ایک دن بھی اس ملک میں نہیں رہیں گے۔ انتہائی جذباتی لہجے میں انکا کہنا تھا کہ پاکستان رہنے کا قابل ملک نہیں رہا جہاں روزانہ انسانی حقوق کے کارکنان کو اٹھایا جاتا ہے اور جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس کیس سے بری ہونے کے بعد اپنے بچوں کے پاس امریکہ جا کر اپنی باقی زندگی گزرنے کے خواہش مند ہیں۔