میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور میں نے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے وضو کیا اور نماز پڑھی اور اللہ سے دعا کی کہ اگر میرے بیٹے کو کچھ ہوا ہوا تو اللہ مجھے حوصلہ اور صبر دیں اور میں جائے نماز پر مسلسل صبر کی دعا مانگتا رہا۔ تقریباً دو گھنٹے گزرنے کے بعد گھر پر کال آئی کہ آپ کا بیٹا اس خودکش حملے میں مارا جاچکا ہے اور گاؤں کے سات نوجوانوں کی لاشیں جو ایف سی میں بھرتی تھے رات گئے گاؤں پاکستان پہنچ جائے گی۔
یہ انتظار کسی قیامت سے کم نہیں تھا اور ہم پل پل مر رہے تھے۔ رات گئے گاؤں میں جیسے ہی سات لاشیں لائی گئیں تو ایک کہرام مچ گیا اور میں نے جیسے ہی بیٹے کی لاش دیکھنے کی کوشش کی تو مجھے بتایا گیا کہ آپ لاش نہیں دیکھ سکتے کیونکہ گوشت کے جلے ہوئے کچھ لوتھڑے ہیں باقی ہوا میں اڑ چکے ہیں۔
یہ کہانی سال 2011میں ایف سی فورس پر ہونے والے خودکش حملے میں جاں بحق ہونے والے 22سال سخی مرجان کی ہے جن کے بزرگ باپ ان دنوں درجنوں شہداء کے خاندانوں کے ساتھ ڈی چوک اسلام آباد پرحکومتی پیکج کی ادائیگی کا مطالبہ لئے دھرنا دے رہے ہیں۔
سخی مرجان کی عمر 22 سال تھی اور وہ تین بچوں کا باپ تھا۔ فرنٹیئر کانسٹیبلری میں ہر سال لکی مروت سے درجنوں نوجوان بھرتی ہوتے ہیں اور لکی مروت سمیت ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، بنوں اور خیبر پختون خواہ کے دیگر پسماندہ علاقوں کے لوگ محدود ملازمت کے مواقع ہونے کی وجہ سے ایف سی میں بھرتی ہوجاتے ہیں۔
سال 2011 میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع چار سدہ کے علاقے شبقدر میں نیم فوجی ادارے، فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی)، کی مرکزی تربیت گاہ پر دو خودکش بم دھماکوں میں کم از کم 100 افراد ہلاک اور سو سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔ تحریک طالبان پاکستان کے اس وقت کے ترجمان احسان اللہ احسان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد یہ پہلا انتقامی حملہ تھا اور تحریک طالبان پاکستان اسامہ بن لادن کا بدلہ لینے کے لئے مزید حملے کریگی۔
حملے کا نشانہ بننے والوں کی اکثریت ایف سی اہلکاروں کی تھی جن میں زیادہ تر نوجوانوں کا تعلق خیبر پختونخواہ سے تھا۔ ایف سی کے جوانوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ ایف سی فورس میں بھرتی ہو کر ابتدائی تربیت مکمل کرنے کے بعد کئی مہینوں بعد اپنے گھروں کو واپس جارہے تھے۔
سخی مرجان کے بزرگ والد نے مزید کہا کہ جوان بیٹا جنھوں نے ابھی زندگی کی شروعات بھی نہیں کی اور بوڑھے والدین اور تین بچوں کی کفالت کی غرض سے ایف سی میں بھرتی ہوئے تھے ۔ ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد پہلی بار گھر ارہے تھے تو ان کو درجنوں دیگر ساتھیوں کے ساتھ خودکش حملوں میں نشانہ بنایا گیا مگر میرے بیٹے کی دھرتی کے لئے قربانی دینے کے باوجود ہمیں شہدا پیکج نہیں دیا گیا اور پانچ لاکھ روپے ادا کرکے ہم سے جان چھڑوا لی گئی۔ انھوں نے الزام لگایا کہ دیگر بااثر خاندانوں کو پورا شہید پیکج دیا گیا مگر ہمیں محروم رکھا گیا۔
ان کے مطابق دس سال پہلے ایف سی میں بھرتی ہونا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا تھا کیونکہ ہر طرف دھماکے اور قتل و غارت تھی مگر ہمارے بچوں نے بھرتی ہوکر حب الوطنی کا ثبوت دیا اور جان اس دھرتی پر نچھاور کی مگر ریاست نے ان کے بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کو تن تنہا چھوڑ دیا۔
ان شہداء کے لواحقین نے بدھ کے روز ڈی چوک پر دھرنا دیا جس میں خواتین، بچے اور بزرگ افراد شامل تھے۔ شہداء کے لواحقین نے اپنے ایک اعلامیہ میں کہا کہ سیکورٹی فورسز میں فرائض سرانجام دینے والے اہلکاروں جو فرائض کے دوران مارے گئے ان کو حکومت شہدا پیکیج کے تخت 30 لاکھ روپے کا معاوضہ ادا کرتے تھے مگر 80فیصد لواحقین کو صرف 5 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا گیا جبکہ صرف 20 فیصد لواحقین کو پورا معاوضہ دیا گیا۔
کرک سے تعلق رکھنے والی پچاس سال شہربانو کے خاوند علی زمان ضلع خیبر میں ایف سی میں فرائض سرانجام دے رہے تھے کہ رات گئے ان کی چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیا اور وہ دیگر چار ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے۔
علی زمان چار بچوں کے باپ تھے اور ان کے مالی سہارے کا واحد زریعہ ایف سی کی نوکری تھی۔ ان کی بیوہ شہربانو نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ان کی شہادت کے بعد دھکے کھا کر سالوں بعد انہیں پانچ لاکھ روپے دئیے گئے اور اس وقت ان کے بچے بہت چھوٹے تھے جو ان کی پرورش پر خرچ ہوئے۔ شہر بانو نے مزید کہا کہ وہ اپنے خاوند کو اکثر منع کرتی تھیں کہ ایف سی کی نوکری چھوڑ دو کیونکہ حالات بہت خراب ہیں مگر ان کے مرحوم شوہر یہی جواب دیتے تھے کہ اگر نوکری چھوڑ دی تو ملک کا دفاع کون کریگا اور وہ مجھے تسلی دیتے تھے کہ موت کا جو دن مقرر ہے اس کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔
ایف سی کے جوان سویلین کپڑوں میں ملبوس تھے اور وہ اپنے گھر والوں سے ملنے کے لئے دس دنوں کی چھٹی پر واپس جارہے تھے ۔ وہ ایف سی تربیت گاہ کے سامنے بسوں میں سوار ہورہے تھے کہ اس دوران ان پر دو خودکش حملے کئے گئے۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس وقت میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ شبقدر حملے مہلک اور طاقتور حملے تھے جن میں بھاری تعداد میں بارود کا استعمال کیا تھا۔ پولیس کے مطابق پہلا خودکش حملہ اس وقت کیا گیا تھا جب ایف سی جوان گھروں کو واپس جانے کے لئے گاڑیوں میں سوار ہورہے تھے جبکہ دوسرا خودکش حملہ اس وقت کیا گیا تھا جب عام شہری اور ایف سی کے جوان سمیت پولیس امدادی کارروائیوں کے لئے جمع ہوگئے اور اس حملے میں سولہ کلو سے زیادہ بارود کا استعمال کیا گیا تھا.
شہربانو کے مطابق شہدا پیکج 20 لاکھ روپے سے زیادہ تھا مگر ان کو محروم رکھا گیا اور اب وہ کرائے کے ایک مکان میں بچوں کے ساتھ رہائش پزیر ہیں۔ شہر بانو نے مزید کہا کہ کیا دنیا میں مادر وطن کی خاطر جان دینے والوں کے لواحقین کے ساتھ حکومت یہی سلوک کرتی ہے جو ہمارے ساتھ کیا گیا؟ شہر بانو کے مطابق جن لوگوں کے خاندان اثر رسوخ والے تھے ان کو حکومت نے 20 لاکھ سے زیادہ کا پیکج دیا مگر ہم تاحال دربدر پھر رہے ہیں۔
ایف سی فورس باقاعدہ فوج نہیں اور نہ ہی فوج کی طرز پر ان کو مراعات اور شہدا پیکج دیا جاتا ہے مگر قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے مشکل وقت میں ایف سی فورس نے مزاحمت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ ایف سی فورس فوج کے آنے سے پہلے قبائلی اضلاع میں فرنٹ فورس تھی جنھوں نے محدود وسائل کے باوجود کئی آپریشنز میں حصہ لیا اور امن و امان برقرار رکھنے کی سرتوڑ کوشش کی۔
ڈی چوک اسلام آباد پر آٹھ سالہ عافیہ بھی موجود تھی جن کا تعلق بنوں سے تھا اور ان کے والد علی مراد کچھ سال پہلے ایف سی میں ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے دہشتگردوں کے ایک حملے میں مارے گئے۔ عافیہ اپنے والدہ کے ساتھ اس مظاہرے میں شریک تھی۔ ان کی ماں کے مطابق عافیہ کی عمر صرف دو سال تھی جب ان کے والد ایک حملے میں مارے گئے مگر اب مجھے سب سے بڑا ڈر یہی ہے کہ عافیہ اور ان کے دو بھائیوں کو میں کیسے پڑھواؤں گی کیونکہ والد تو زندہ رہے نہیں اور گھر کی کفالت کرنے والا کوئی نہیں۔ عافیہ کی ماں کو بھی شوہر کی شہادت کے بعد پانچ لاکھ کی رقم دی گئی اور شہداء پیکج سے محروم رکھا گیا۔