جنرل فیض حمید بطور ڈی جی آئی ایس آئی: ' اس دور میں صحافت، سیاست اور عدالت ہر کسی نے ایک ہی نام لیا'

03:37 PM, 7 Oct, 2021

رضا ہاشمی
جون 2019 میں ڈی جی آئی ایس آئی تعینات ہونے والے جنرل فیض حمید کو بدھ کی دوپہر پشاور کور کمانڈر تعینات کر دیا گیا ہے۔
وزیر اعظم نے رخصت ہونے والے ڈی جی آئی ایس آئی کی خدمات کی تعریف کی اور نئی پوسٹنگ پر نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
آرمی کی بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی تعیناتی کے حوالے سے ڈان نے لکھا ہے کہ انہیں اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیا گیا تھا جب ملک کے لئے اندرونی اور بیرونی سطح پر سکیورٹی چیلنجز میں اضافہ ہو گیا تھا۔ جب کہ اس حوالے سے اہم یہ ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے دور میں سیاست، صحافت اور عدالت سے خفیہ ہاتھوں کے انکے خلاف متحرک ہونے پر بے شمار تنقید سامنے آئی۔

اسی تناظر میں ان کے دور میں آئی ایس آئی جو کہ ملک کی خفیہ ایجنسی ہے، وہ ایک موضوع عام بنی۔ کبھی اس سے شمالی علاقہ جات کی نسبت جڑی تو کبھی اسے محکمہ زراعت کے لقب سے پکارا گیا۔

جنرل فیض حمید کا نام سب سے پہلے اس وقت سامنے آیا تھا جب انہوں نے نومبر 2017 میں تحریک لبیک کا فیض آباد دھرنا معاہدے کے ذریعے ختم کرانے میں مدد کی تھی۔ اس دھرنے کے اختتام پر رینجرز اہلکار کی جانب سے دھرنے کے شرکا میں پیسے بانٹنے کی ویڈیو بہت عرصہ وائرل رہی۔
2018 کے انتخابات اور اس کے بعد پے درپے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کو لے کر ان پر انگلیاں اٹھتی رہیں۔
اس حوالے سے میر حاصل بزنجو نے 2019 میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریکَ عدم اعتماد ناکام ہونے پر جنرل فیض حمید کو اس کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل فیض حمید شاید پاکستان کے پہلے ایسے ڈی جی آئی ایس آئی تھے جن کا نام لے کر اپوزیشن کے کلیدی رہنماؤں نواز شریف اور بعد ازاں ان کی صاحبزادری مریم نواز نے تنقید سیاسی مداخلت کا الزام لگا کر تنقید کی۔ پی ڈی ایم کے تحت گوجرانوالہ جلسے میں نواز شریف کی جانب سے ان کا براہِ راست نام لیا گیا۔

جنرل فیض حمید کے دور میں ریاست کے دوسرے اہم ستون عدلیہ کی جانب سے بھی ان کے کردار پر بات کی گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے نام لے کر کہا کہ جنرل فیض نے ان کو کہا تھا کہ ایون فیلڈ کیس میں مریم نواز اور نواز شریف کو الیکشن سے پہلے جیل سے باہر نہیں آنا چاہیے۔ بار سے خطاب کے دوران انہوں نے یہ دعویٰ کیا تو انہیں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی قیادت میں سپریم جوڈیشل کونسل نے جج کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ 2021 میں انہوں نے سپریم کورٹ میں ایک پیٹیشن دائر کی جس میں انہوں نے لکھا کہ جنرل فیض نے ان کو کہا تھا کہ نواز شریف اور مریم جیل سے باہر آئے تو ان کی دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔
عدلیہ کے باہر بھی یہ تاثر عام رہا کہ اسٹیبلشمنٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی فیض آباد دھرنے کے از خود نوٹس میں دیے گئے فیصلے پر ناراض ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ قاضی فائز عیسیٰ کو ہر صورت سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ ایک ریفرنس سے اس کے ہلکے پن کی وجہ سے تو بچ گئے لیکن اب ان کی چیف جسٹس شپ بھی خطرے میں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ خود وزیر اعظم عمران خان کے نام اپنے ایک کھلے خط میں کہہ چکی ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے مسائل کا آغاز اس وقت ہوا جب ان کے شوہر نے فیض آباد دھرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ دور میڈیا پر بھی ابتلا کا دور رہا۔ سینیئر صحافی اور سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے ڈی جی آئی ایس آئی کا نام لے کر ان پر تنقید کی جب کہ صحافی اسد علی طور پر گھر میں گھس کر تشدد ہوا تو انہوں نے بھی دعویٰ کیا کہ ان پر تشدد کرنے والے خود کو آئی ایس آئی کے اہلکار بتاتے رہے تھے۔

تاہم، اس دوران پاکستان نے تزویراتی اور سفارتی کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ جنرل فیض حمید کے دور میں افغانستان میں آنے والی تبدیلی ایک بڑی پیش رفت تھی۔ وہ اس تبدیلی میں بطور ڈی جی آئی ایس آئی پاکستان کے سب سے اہم کھلاڑی تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے پیش رو خاص تصویریں بنوانے کے شوقین نہ تھے۔ تاہم، ان کے افغانستان جانے اور کابل کے سرینا ہوٹل میں چائے پینے کی تصاویر میڈیا میں آئیں تو اس پر سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کی جانب سے تنقید کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اتنا کھل کر سامنے نہیں آنا چاہیے۔
پشاور کور کمانڈر بن کر جنرل فیض حمید پہلی بار ایک کور کی کمانڈ کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ آرمی چیف بننے کے لئے فوج میں روایت رہی ہے کہ افسر نے کم از کم ایک کور کی کمانڈ ضرور کر رکھی ہو۔ صحافتی حلقوں میں یہ چہ مگوئیاں ہیں کہ افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر کور کمانڈر پشاور بنا کر دو مقاصد پورے کروائے گئے۔ اب وہ پاک افغان سکیورٹی امور پر گرفت رکھنے والے کہنہ مشق سالار کے طور پر جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اہم امیدوار ہوں گے۔ لیکن تب وزیر اعظم عمران خان ہوں گے۔ وہ تعیناتیوں کے معاملے میں حیران کر دینے والے وزیر اعظم ثابت ہوئے ہیں۔
جس طرح سے مریم نواز شریف جنرل فیض حمید کا نام لینے میں کوئی تامل نہیں برت رہیں، جیسے جیسے الیکشن قریب تر آ رہے ہیں اور جیسے افغانستان میں ہر پیش رفت پر عالمی رد عمل آرہا ہے، آنے والے دن تلاطم خیزی سے بچ نہ پائیں گے۔
مزیدخبریں