ہمارا ملک کیسا ہے؟‎

11:37 AM, 7 Sep, 2019

کنور نعیم

ہم کسی بھی سڑک پر نکل جائیں تو چند ایک نظارے ضرور استقبال کرتے ہیں۔ دیواروں پر فن کا غلط استعمال جو کہ کتے کا بچہ پیشاب کر رہا ہے سے لیکر گدھا کچرا پھینک رہا ہے تک جاتا ہے۔


ہمیں حکومتوں سے ایک شکوہ ہمیشہ رہا کہ وہ صفائی ستھرائی کا بندوبست نہیں کرتیں، لیکن جہاں کچرا پھینکنے کے ڈبے موجود بھی ہوں، ہمیں کچرا ان ڈبوں کے آس پاس گھیرا لگائے ہوئے ملتا ہے۔ گویا وہ ڈبہ نہ ہو کوئی مقدس ہستی ہو۔ صفائی کو ہم نصف ایمان مانتے ہیں اور پاکی کو اپنی انسانیت اور مذہب کا لازمی جُز لیکن پیشاب ہم جہاں چاہے کر دیتے ہیں۔ پھر چاہے وہ سڑک کا کنارا ہو یا محلے کی گلی۔ اور بعض اوقات تو صرف کھلی ہوا کی لذت کی خاطر بھی یہ کام کیا جاتا ہے خواہ گھر بغل میں ہی کیوں نہ ہو۔

کہیں قطار لگانا پڑ جائے تو ہم یا تو آگے بڑھنے کے لیے دھکے دینا شروع کردیتے ہیں، یا اپنی کوئی الگ ڈیڑھ اینٹ کی قطار بنانے لگ پڑتے ہیں۔ اگر یہ سب نہ کر پائیں تو قطار سے بچنے کے لیے کوئی واقفیت ڈھونڈنے لگتے ہیں۔


ہماری ٹریفک طوفان بد تمیزی مچاتی ہے۔ اسکول سے گھر جانے والے بچے بھی کوڑا کرکٹ پھیلا رہے ہوتے ہیں۔ یہ تمام اور اس جیسے کئی ایک کام جو ہم روزانہ کی بنیاد پر ایک عرصے سے یا تو دیکھتے آ رہے ہیں یا کرتے آ رہے ہیں اور اب تو یہ عالم ہے کہ قباحت والی حس بھی دم توڑ گئی۔

یہ سڑک پر پیشاب کرنا، دیواروں پر مغلظات لکھنا، گند پھیلانا، قطاریں توڑنا، ٹریفک کا نظام خراب کرنا۔ کیا اس میں کسی حکومت کو الزام دیا جائے؟ یا پھر اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔


کسی کے گھر اگر جائیں، اور اس گھر کا ماحول ایسا ملے کہ جوتے کمروں کے اندر ہوں، بستر پر چادریں سلوٹوں سے بھری ہوں، کھانے کا میز بے ترتیب ہو، کوڑا کرکٹ گھر کی دہلیز پر ہو۔ بیت الخلا میں کیے جانے والے کام سر راہ ہو رہے ہوں، گھر کی دیواروں پر گالیاں لکھی ہوں، گھر کے افراد ادب اور سلیقے سے نا آشنا ہوں۔ ایسے گھر والوں کے بارے میں آپ کیا رائے قائم کر کے نکلیں گے؟ بس یہی رائے ہمارے بارے میں دیکھنے والے رکھتے ہوں گے۔
مزیدخبریں