چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے آئی جی سے پوچھا آئی جی صاحب بتائیں کون ساجد گوندل کے گھر گیا ہے، جس پر آئی جی نے کہا کہ ڈی ایس پی کو بھیج دیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کیا کسی وزیر یا کسی افسر کا بیٹا اغوا ہوجائے تو پھر آپ ڈی ایس پی کو بھیجیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کی وزارت اور افسران زمینوں کے کاروبار میں لگی ہوئی ہے، یہ عدالت کے لئے بہت افسوسناک ہے۔ چودہ سو میل کے علاقے میں قانون کی حکمرانی نہ ہونا افسوس ناک ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر چئیرمین جاوید اقبال نے اس پر ایکشن لیا ہے تو کیا ان کو پتہ ہے کہ ساجد گوندل کو کس نے اغوا کیا ہے۔ جاوید اقبال کی جیوریسڈکشن صرف جبری گمشدگیوں تک ہے، تو کیا ان کو معلوم ہے کہ کس نے اغوا کیا ہے، جس پر آئی جی اسلام آباد خاموش رہے۔ اگر کوئی سرکاری اہلکار پولیس یا ایف آئی اے کے لوگ زمینوں کے کاروبار میں ملوث ہے تو وہ کیا کارگردگی دکھا سکتے ہیں؟ کیا مقامی پولیس کے بغیر ایسا ممکن ہے۔
چیف جسٹس نے ساجد گوندل کی ماں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ اس ماں کا میں کیا کروں جو عدالت میں میرے سامنے کھڑی ہے۔ وزارت داخلہ کے لوگ ہاوسنگ سوسائیٹی کے کیسز میں لگے ہیں، وہ لوگوں کے نہیں زمینوں کے کاروبار کے فیصلے کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے سرکاری اہلکاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ لوگ مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں، لوگوں کو تحفظ نہیں دے سکتے تو دوسرے شہری آپ پر کیسے اعتماد کریں؟ یہاں قانون کی اور حکومت کی حکمرانی نظر نہیں آرہی تو لوگ کیسے محفوظ ہوں گے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے سیکریٹری داخلہ پر برہم ہوتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے وفاقی کابینہ یا وزیراعظم کو بتادیا ہے کہ وزارتوں کے افسران اور خفیہ ایجنسیز زمینوں کے کاروبار میں لگے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ آئی جی صاحب آپ نے اس عدالت کو مطمئن کرنا ہے کہ آج کے بعد ایسے واقعات نہیں ہونگے، آج کے بعد کوئی اغوا نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے مخاطب ہو کر کہا کیا یہ عدالت ایسے بیٹھ سکتی ہے کہ لوگ اغوا ہوں اور آئین کا یہ بڑا ادارہ خاموش رہے۔