یہ سلسلہ احمد نورانی کے سابقہ ادارے دی نیوز کی جانب سے شروع ہوا جہاں روزانہ کی بنیاد پر احمد نورانی کے خلاف کوئی نہ کوئی خبر چھاپی جاتی رہی۔ کبھی کسی کا بیان ان کے خلاف چھپتا جس میں انہیں ملک کا غدار قرار دیا گیا ہوتا تو کبھی کوئی مضمون ایسا شائع ہو جاتا جس میں ان کی ملک سے محبت پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کی جاتی۔ اس کردار کشی کی بدترین مثال وہ تھی جب عمران خان اور ان کے لانے والوں کے پرانے ثنا خوان مظہر برلاس نے ایک کالم لکھا جس میں انہوں نے احمد نورانی کو پھر سے غدار قرار دیا۔ یہ کالم اس حوالے سے بھی افسوسناک ہے کہ یہ جنگ کے ادارتی صفحے پر شائع ہوا جس کے انچارج کوئی اور نہیں بلکہ ملک کے نامور کالم نگار اور صحافی سہیل وڑائچ ہیں۔
جنگ گروپ کی جانب سے اپنے ایک سابق رپورٹر سے متعلق اس قسم کی رپورٹنگ اور مضامین کا شائع ہونا خود ادارے کے لئے بھی کوئی نیک نامی کا باعث نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ماضی میں حامد میر پر غداری کے الزامات لگانے والے ہی اس وقت احمد نورانی پر بھی الزامات لگا رہے ہیں؟ فرق محض اتنا ہے کہ جنگ گروپ نے غداری کے الزامات لگانے والوں کی آواز میں اپنی آواز بھی ملا دی ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ جنگ گروپ کے اپنے مالکان پر انہی لوگوں کی جانب سے غداری کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ ان پر بھی اسی طرح امن کی آشا جیسے نیک کام پر بھارت سے پیسے لینے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ کیا اسی گروپ کی جانب سے اب ایسے لوگوں کی آواز میں اپنہ آواز شامل کرنا انہی لوگوں کے لگائے ہوئے پرانے الزامات کو تقویت نہیں دیتا؟
عجیب بات یہ ہے کہ اب تک کسی ایک صحافی نے بھی احمد نورانی کے الزامات کو رد کرنے کے لئے ان الزامات کی صحافتی انداز میں پڑتال کرنے کی کوشش تک نہیں کی۔ کوئی غداری کا الزام لگا رہا ہے تو کوئی بھارتی ریٹائرڈ میجر گوریو کے الزامات کو دوبارہ دہرانے کی گردان کر رہا ہے لیکن کسی ایک نے بھی یہ کوشش نہیں کی کہ ایک بار ویب سائٹ کھول کر اس خبر کے ساتھ نتھی کی گئی دستاویزات کو دیکھ لیتا۔ یہاں تک کہ سینیئر صحافی نسیم زہرہ نے بھی میجر گوریو کے الزامات دہرانے کی بات کو ٹوئٹر پر لکھ کر احمد نورانی کی صحافتی دیانت پر سوال اٹھا دیا۔ انہوں نے بھی ویب سائٹ پر خبر کے ساتھ لگی دستاویزات کو کھول کر پڑھنے کی زحمت نہیں کی۔ صحافی اعزاز سید نے بھی کہا کہ نسیم زہرا نے احمد نورانی پر الزامات کو دہرائے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی صحافیوں کو اس قسم کی تحقیقاتی صحافت کی عادت نہیں ہے۔ یہاں عموماً خبر شائع کی جاتی ہے تو اخبار ساتھ لکھ دیتا ہے کہ دستاویزات کی کاپیاں ادارے کے پاس محفوظ ہیں یا پھر ہم نے دیکھ رکھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نے خبر کے ساتھ اس لنک کو کلک ہی نہیں کیا جس پر تمام دستاویزات موجود ہیں۔
لیکن میڈیا کے لئے اس سے کہیں زیادہ شرمندگی کا سامان ملک کے نامور تحقیقاتی صحافیوں کے درماین ایک دوسرے پر لگائے گئے الزامات اور جوابی الزامات ہیں۔ معاملہ یوں ہوا کہ رؤف کلاسرہ نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ وہ اور عامر متین پبلک نیوز پر اپنا پروگرام شروع کرنے جا رہے ہیں تو ان کو عاصم سلیم باجوہ صاحب نے مبارکباد بھی دی اور خصوصی طور پر لکھا کہ ان کے پروگرام کو مس کیا جا رہا تھا۔ جواباً رؤف کلاسرہ نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جانب سے دو عدد ’تنقیدی‘ وی لاگز کے باوجود عاصم باجوہ کی جانب سے اس مبارکباد پر وہ مشکور ہیں۔
رؤف کلاسرہ کی اس ٹوئیٹ کو اعزاز سید نے قوٹ کر کے لکھا کہ اگر کسی نے کلاسرہ صاحب کے وہ تنقیدی وی لاگ دیکھے ہیں تو انہیں بھی مطلع کریں۔ اس کے جواب میں رؤف کلاسرہ نے اپنے یوٹیوب چینلز سے وی لاگز کا لنک دینے کی بجائے اعزاز سید کو یاد دلایا کہ جب انہوں نے اپنی سی وی ڈان اخبار میں دی تھی تو کلاسرہ صاحب کو بیورو چیف ارشد شریف نے فون کر کے پوچھا تھا کہ یہ بندا آپ کا نام لے رہا ہے، ’دیکھنے میں تو کوئی سڑک چھاپ‘ لگتا ہے لیکن تمہیں میں انکار نہیں کر سکتا۔ جس پر رؤف کلاسرہ کے بقول انہوں نے ارشد شریف کو کہا کہ اس کے گھر کا چولہا جل جائے گا، رکھ لو نوکری پر۔
یہ انتہائی نامناسب بات کر کے رؤف کلاسرہ نے اپنے اوپر تنقید کے دروازے کھول دیے۔ ان کو نہ صرف متعدد لوگوں نے یاد کروایا کہ یہ کوئی احسان نہیں تھا، ہماری فیلڈ میں یہ بات عام ہے بلکہ خود اعزاز سید نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ ان کی سی وی پر رؤف کلاسرہ کا ریفرنس موجود تھا۔ لیکن یہ تو کوئی ایسی بات نہیں کہ جس کی بنیاد پر وہ ساری زندگی ان کی کسی غلط بات کو غلط نہ کہیں۔ سینیئر صحافی مبشر زیدی نے بھی رؤف کلاسرہ کی ٹوئیٹ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں اس وقت ڈان نیوز کا ایڈیٹر تھا اور اعزاز سید کو نوکری پر میں نے رکھا تھا۔
جہاں تک رؤف کلاسرہ کے وی لاگز کی بات ہے تو ان کے یوٹیوب چینل پر ایک سرسری سی نظر ڈالی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ انہوں نے عاصم باجوہ کے معاملے میں کیسی رپورٹنگ اور تجزیات کیے۔ مثلاً اپنی ایک ویڈیو میں وہ عمران خان کی جانب سے عاصم باجوہ کا استعفا قبول نہ کرنے کی توجیہات پیش کر رہے ہیں۔ ایک میں پیپلز پارٹی کی جانب سے عاصم باجوہ سے رسیدیں طلب کرنے کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان بڑھتی قربتوں کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں تو تیسرے میں مریم نواز کے عاصم باجوہ کے خلاف تحقیقات کے مطالبے کو نواز شریف کے کسی خیالی جال میں پھنس جانے کے بعد ان کا جوابی وار قرار دے رہے ہیں۔ اس موضوع پر ان کے تینوں وی لاگز پر تھمب نیلز سے تو کم از کم یہی نظر آتا ہے کہ وہ اصل موضوع سے زیادہ جزئیات پر گفتگو کر کے انگلی کٹوا کے شہیدوں میں نام لکھوانے کے ساتھ ساتھ عاصم باجوہ پر لگے الزامات کو مختلف طریقوں سے سیاسی بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ کلاسرہ صاحب کو کم از کم اعزاز سید پر کیا اپنا احسان جتانا نہیں چاہیے تھا۔ یہ اگر کوئی نیکی تھی بھی تو شاید اس کے یوں پرچار کیے جانے سے اکارت گئی۔
لیکن کلاسرہ کے جواب میں احمد نورانی نے ٹوئیٹ کیا کہ رؤف کلاسرہ کے خلاف 2009 میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے پلاٹ لینے کی خبر بھی انہوں نے ہی بریک کی تھی۔ جس پر کلاسرہ نے جواب دیا کہ وہ مبشر زیدی اور اسد علی طور کی طرح انہیں بھی عدالت میں گھسیٹیں گے جہاں پر ان دونوں کو پہلے ہی دس، دس لاکھ روپے جرمانے کیے جا چکے ہیں کیونکہ انہوں نے یہی الزامات دہرائے تھے۔ انہوں نے کہا کہ احمد نورانی پاکستان آ کر عدالتوں کا سامنا کریں۔
جواباً احمد نورانی نے لکھا کہ آپ میرے پاکستان آنے کا انتظار نہ کریں، عدالت میں کیس درج کروائیں، میرا وکیل فوراً جواب دے گا۔
https://twitter.com/Ahmad_Noorani/status/1302881152106196992
سوشل میڈیا پر صحافیوں کا یوں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا پاکستانی میڈیا کی ساکھ کے لئے جہاں کوئی نیک شگون نہیں، وہیں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ یہ کبھی نہ کبھی تو ہونا ہی تھا۔ پاکستانی صحافی ایک دوسرے کے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں اور اگر یہ حقائق سامنے لے آئے جائیں تو بڑے بڑے صحافیوں کی اصلیت کھل کر سامنے آ جائے گی۔
جہاں سیاست اور ریاستی اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کی نشاندہی کا سلسلہ جاری ہے، صحافتی شعبے کے اندر کا کچا چٹھہ کھل جائے تو یہ ملک کی ایک بہت بڑی خدمت ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ سعادت حاصل کرنے کی جرأت کون دکھائے گا۔ آخری مرتبہ یہ کوشش مطیع اللہ جان نے کی تھی، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔