انہوں نے کہا کہ عورت کے حوالے سے غیرت کا یہ دعویٰ سراسر غلط ہے۔ عورت کے ساتھ غیرت کو نتھی کرنے والے پھر اسکے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھتے ہیں۔ اس حوالے سے کئے گئے قتل یا دیگر جرائم میں مردانہ معاشرے کی پولیس بھی قاتلوں کو تحفظ دیتی ہے۔ اگر صرف سندھ کی بات کی جائےتو ایک سو سے زائد خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی گئیں پاکستان کے اعداد و شمار اس سے بھی زیادہ بھانک ہوں گے۔ ان تمام قاتلوں کو ولی کی جانب سے معاف کردیا جاتا ہے۔ اس کے لئے اسلام کا نام اس جرم میں استعمال ہوتا ہے ، علما کبھی بھی اس پر آواز نہیں اٹھاتے۔ حتیٰ کہ اسلام نے اس ظلم کی کہیں اجازت نہیں دی۔
اس حوالےسے انکا کہنا تھا کہ معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل جیسے سنگین معاملے پر کبھی بات ہی نہیں کی گئی۔ لیکن سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ غیرت کو کسی بھی قتل کے اقدام کے ساتھ نہ استعمال کیا جائے کہ قتل کی کسی بھی وارادت میں کوئی غیرت نہیں ہوسکتی۔ یہ ریمارکس کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتے لیکن یہ بحث شروع کرنے اور بیانیہ بنانے کے لئے مددگار ہیں۔ ریاست کو بھی اس بیانیئے کو اپنانا چاہئے کہ غیرت کے نام پر قتل میں کوئی غیرت نہیں۔ اس کے بغیر اس کا تدارک نہیں ہوسکتا۔ اس کے لئے معاشرتی سظح پر بھی ہمیں آگاہی مہم چلانی چاہیئے کہ عورت اپنا اختیار خود میں رکھتی ہے اسکی جان مال کا کوئی اور حکمران نہیں ہوسکتا۔